Dec ۲۹, ۲۰۲۰ ۰۹:۰۴ Asia/Tehran

عراق کے موصل شہر کو داعش کے قبضے سے آزاد کرانے میں جہاں جنرل قاسم سلیمانی کا کردار اہم ہے وہیں ان کے ساتھی ابو مہدی المہندس کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

10 جولائی 2017 کو عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے موصل کی مکمل فتح کا اعلان کر دیا تھا۔

عراق کی رضاکار فورس کے نائب سربراہ ابومہدی المھندس نے بھی موصل کی آزادی کی مناسبت سے ایک بیان میں کہا کہ عراقی فوج، فیڈرل پولیس، انسداد دہشت گردی فورس، سریع الحرکت فورس اور رضاکار عوامی فورس کے ساتھ مل کر عراقی عوام بھی اس کامیابی کا جشن منا رہے ہیں۔ابومہدی المہندس نے مزید کہا کہ ہم اس موقع پر عراقی حکومت، عوام، میدان جنگ میں سرگرم عمل رہنے والے تمام اداروں اور مرجع عالیقدر آیت اللہ العظمی سیستانی کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اپنی ہدایات سے تمام عراقیوں کو یکجا کیا۔عراق کےصدر دھڑے کے سربراہ مقتدی صدر نے بھی عراقی فوج کو موصل کی آزادی کی مبارکباد دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ حالات کو اپنے کنٹرول میں رکھیں اور ملک کی سرحدوں خاص طور پر مغربی سرحدوں پر امن و سیکورٹی برقرار رکھیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران، روس، شام، چین اور کویت سمیت مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے ملت عراق کو تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے موصل کی آزادی کی مبارکباد پیش کی ہے اور اس کامیابی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے میدان میں بین الاقوامی تعاون کے سلسلے میں مثبت قدم قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ رواں برس تین جنوری کو امریکی دہشتگردوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے براہ راست حکم سے ایران کی قدس بریگیڈ کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو انکے ساتھیوں کے ہمراہ فضائی حملہ کر کے شہید کر دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی عراق کی باضابطہ دعوت پر بغداد پہنچے تھے اور وہ حکومت عراق کے مہمان تھے۔

امریکہ کے اس دہشتگردانہ حملے کے جواب میں ایران نے بھی ایک ابتدائی انتقامی کارروائی کرتے ہوئے 8 جنوری کوعراق میں امریکی دہشتگردی کے سب سے بڑے اڈے عین الاسد پر درجن بھر میزائل داغ کر امریکہ کی شان و شوکت کو خاک میں ملا دیا تھا۔ ایران کے اس حملے میں امریکہ کا بڑا جانی و مالی نقصان ہوا تاہم امریکہ نے کئی ہفتے کی خاموشی کے بعد آہستہ آہستہ اور بتدریج اپنے سو سے زائد دہشتگرد فوجیوں کو صرف دماغی چوٹیں آنے کا اعتراف کرنے میں ہی عافیت سمجھی۔

ٹیگس