ایرانی فائرفائیٹرز نے افغانستان میں آگ بجھائی
ایران نے ایک بار پھر افغانستان کے ساتھ اپنی برادری ثابت کرتے ہوئے دونوں ممالک کے قریبی رشتے سے دنیا والوں کو آگاہ کر دیا۔
اب سے تین روز قبل افغانستان میں ایرانی سرحد کے ساتھ لگے صوبۂ ہرات کی اسلام قلعہ کسٹم پوسٹ پر گزشتہ روز گیس ٹینکر میں شدید دھماکے ہوئے جس کے باعث کم از کم ستر افراد جاں بحق و زخمی ہو گئے تھے۔
اس ہولناک حادثے میں سو سے پانچ سو تک فیول اور گیس ٹینکروں کے جل کر تباہ ہونے کی خبر بھی سامنے آئی اور حادثہ کی شدت اور ہونے والی بڑی تباہی کے پیش نظر ایران نے بھی جائے حادثہ کے نزدیک اپنی سرحد پر لازمی انتظامات عمل میں لاتے ہوئے فوری طور پر اپنے فائر فائٹرز کو آگ پر قابو پانے کے لئے افغانستان کی سرحدوں کے اندر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
اطلاعات کے مطابق ایران نے حادثے کے فورا بعد افغان حکام کی کال کا فوری جواب دیتے ہوئے اپنی فائر بریگیڈ کی گیارہ گاڑیاں اسلام قلعہ کی جانب روانہ کیں۔ خاص سہولتوں سے لیس آگ بجھانے والی یہ گاڑیاں مشہد مقدس سے سرحدی علاقے کی جانب روانہ کی گئیں۔
حادثے کے فورا بعد ایران کی ترجمان وزارت خارجہ نے یہ اعلان کیا تھا کہ دونوں ممالک کے حکام مسلسل رابطے میں ہیں اور حادثے کے بعد وہاں موجود افراد اور گاڑیوں کو درکار لازمی امداد رسانی کے لئے مقدمات فراہم کئے جا رہے ہیں۔
حادثے کے بعد ایران کی جانب سے کئے گئے اقدامات کے بعد افغانستان کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے بھی ایران کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم اپنے دوست ملک ایران کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اُس نے جائے حادثہ پر موجود ایک ہزار سے زائد گاڑیوں اور ٹرکوں کو آگ سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی سرحدیں کھول کر ملک کے اندر آنے دیا اور آگ بجھانے میں ہماری مدد کی۔
ایران اور افغانستان کے مابین دوستانہ اور برادرانہ تعلقات قائم ہیں اور اسی کے پیش نظر ایران ہمیشہ ہی افغانستان میں قیام امن کے لئے کوشاں رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ایران میں مقیم غیر ملکی مہاجرین میں سے ۹۵ فیصد افغانستان سے تعلق رکھتے ہیں جن کی تعداد قریب تیس لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔ ان تیس لاکھ افراد میں ساڑھے چار لاکھ سے زائد وہ طلبہ ہیں جو ایران کے مختلف گوشوں میں اور مختلف سطح پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اسکے علاوہ ایک لاکھ سے زائد ایسے افغان طلبہ بھی ہیں جو قانونی ویزا کے بغیر ایران میں داخل ہونے کے باوجود، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کی جانب سے دی گئی خصوصی مراعات کے طفیل مختلف تعلیمی مراکز میں مصروف تعلیم ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ قریب بیس برسوں سے امریکی دہشتگردوں کی سرکردگی میں نیٹو کی افواج موجود ہیں جو گیارہ ستمبر کے ڈرامائی واقعے کے بعد دہشتگردی سے مقابلے کے بہانے افغانستان میں درآئیں تھیں تاہم انکی موجودگی سوائے جنگ، خونریزی، تباہی، قتل عام، خون خرابے، بد امنی، دہشتگردی اور منشیات کی پیداوار اور اسمگلنگ میں ہوشربا اضافے کے، اور کچھ افغانستان کو نہیں دے پائی اور جب کبھی کسی سانحے یا واقعے میں افغان حکومت و عوام کو مدد کی ضرورت ہوئی، تو امن کے دعویدار یہ بن بلائے مہمان کبھی نظر نہ آئے۔
افغان حکومت و عوام اپنے ملک میں بڑھتی بد امنی اور دہشتگردی کا اصل ذمہ دار امریکی دہشتگردوں کی سرکردگی میں وہاں موجود غیرملکی فوجیوں کو قرار دیتے ہیں۔
اب سے تین سال قبل منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق تین کروڑ کی آبادی والے افغانستان میں کل دوہزار فائر فائٹرز موجود تھے۔ مقامی حکام اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ فائر فائٹرز کی یہ تعداد اب سے دس سال قبل کے حالات کے لئے تھی مگر اب موجودہ حالات کے پیش نظر اس شعبے میں افراد اور سہولتوں میں خاصا اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔