دمشق انقرہ کے تعلقات کا انحصار ترکی کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے پر ، شام کے وزیر خارجہ
شام کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ترکیہ کے ساتھ تعلقات شام کے علاقوں سے ترکیہ کی پسپائی کے بغیر معمول پر نہیں آسکتے۔
سحرنیوز/عالم اسلام:اسنا کی رپورٹ کے مطابق شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دمشق انقرہ کے تعلقات کے معمول پر آنے کا انحصار شام کے علاقوں پر ترکی کے غاصبانہ قبضے کے خاتمے پر ہے۔
فیصل مقداد نے کہا کہ شام کے صدر بشار اسد اور ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوغان کے درمیان ملاقات بھی شام سے ترکیہ کی پسپائی پر ہی ہو سکتی ہے۔
انھوں نے عرب لیگ کے حالیہ سربراہی اجلاس کے بارے میں بھی کہا کہ اس اجلاس میں ہم نے شام کے رہنماؤں اور قوم کے سلسلے میں محبت و مہربانی کا مشاہدہ کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ عرب حکام اور اقوام نے ہمیشہ ہی ہم سے اظہار محبت کیا ہے اس لئے کہ شام سب سے بڑھکر عرب اقوام کے اہداف کا پابند رہا ہے۔
شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نےغاصب صیہونی حکومت کی جانب سے شام کے علاقوں پر جارحیت کے ارتکاب کی شدید مذمت کی اور تل ابیب کو اس قسم کی جارحیت جاری رکھنے پر سخت خبردار کیا۔
انھوں نے اسی طرح اعلان کیا کہ مقبوضہ فلسطین کی غاصب صیہونی حکومت کی جارحیت کے مقابلے میں عرب ملکوں کے لئے شام کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔
شام کے وزیر خارجہ فیصل مقداد نے شام کے پناہ گزینوں کے بارے میں بھی کہا کہ شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں پائی جاتی اور انھیں کسی کارڈ کی بھی ضرورت نہیں ہے اور لبنان، شمالی علاقے نیز اردن میں شامی پناہ گزینوں سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے وطن واپس لوٹ آئیں اور شام اپنے وطن کے فرزندوں کا خیرمقدم کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
دریں اثنا ترکیہ کے وزیر خارجہ نے شام کے زیر کنٹرول علاقوں میں شامی پناہ گزینوں کی واپسی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انھوں نے اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے سلسلے میں ترکیہ کی جانب سے شام کی حکومت کے ساتھ تعاون شروع ہو چکا ہے، کہا ہے کہ شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی دمشق کے زیر کنٹرول علاقوں میں ہی ہونی چاہئے۔
مولود چاووش اوغلو نے اس سلسلے میں کہا کہ شامی پناہ گزینوں کے مستقبل کو ایک ایسا مسئلہ قرار دیا کہ جو دس مئی کو ایران، ترکیہ، شام اور روس کے وزرائے خارجہ کے ماسکو اجلاس میں اٹھایا گیا اور کہا کہ اس اجلاس کے شرکا نے بھی شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا نقشہ راہ تیار کئے جانے سے اتفاق کیا ہے۔
ترکیہ کے وزیر خارجہ نے شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی منصوبہ بندی کو ترکیہ، شام اور روس کے سربراہوں کی سہ فریقی نشست پر موکول کیا۔
قابل ذکر ہے کہ ترکیہ میں شام کے تقریبا تیس لاکھ پناہ گزینوں کا مسئلہ ترکیہ کے انتخابات کی مہم میں شامل رہا ہے اور حکمراں جماعت کے امیدوار اور ترکیہ کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان اور مقابل امیدوار قلیچدار اوغلو اس بارے میں الگ الگ نظریات کے حامل رہے ہیں۔
ایسی حالت میں کہ شمالی شام میں ترکیہ کی فوجی مداخلت انقرہ اور دمشق کے تعلقات معمول پر آنے کی راہ میں اصلی رکاوٹ شمار ہوتی ہے، ترکیہ کی حکمراں جماعت کے امیدوار اور اس ملک کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان، ایک واضح نظام الاوقات کے تحت ترکیہ سے شامی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی ضرورت پر زور دیتے ہیں تاہم ان کے حریف امیدوار قلیچدار اوغلو مخالیفن کے نمائندے کی حیثیت سے ترکیہ سے شامی پناہ گزینوں کو فوری طور پر نکال باہر کئے جانے کے خواہاں ہیں۔