شہید ڈاکٹرمحمد علی نقوی حضرت امام خمینی (رح) کے جاں نثار
پاکسان کے اسکالر، ممتاز مذھبی و سیاسی شخصیت اورامامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی شہید ڈاکٹر محمدعلی نقوی کی 22 ویں برسی کے موقع پر پاکستان میں مختلف قسم کے پروگراموں کا سلسلہ جاری ہے۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، شیعہ علماء کونسل اور دیگر سیاسی و مذھبی شخصیات نے لاھور میں آپ کی قبر پر حاضری دی اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کیں جبکہ افکارِ شہداء سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ شہید کے افکار پرعمل ہی ہماری طرف سے شہید کو سب سے بڑا تحفہ ہوگا، ہمیں عمل کے میدان میں شہید کی راہوں پر چلنا ہے، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں ولائی افراد کی امیدوں کا مرکز ہے۔
سیمینار میں شہید کے رفقاء علامہ غلام شبیر بخاری، امجد کاظمی، علی رضا بھٹی، علامہ احمد اقبال رضوی، علامہ غلام عباس رئیسی، صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سرفراز نقوی اور دیگر نے شرکت کی۔ مرکزی صدر سرفراز نقوی نے کہا کہ شہید نقوی کی شخصیت نوجوانوں کیلئے آئیڈیل ہے کہ انہوں نے اجتماعی و اسلامی ذمہ داریوں کے جذبے کو اس وقت فروغ دیا کہ جب پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سوشلزم و کمیونزم جیسے نظریات کو فروغ دیا جا رہا تھا۔
شہید ڈاکٹر ملت کے نوجوانوں کو عظیم سرمایہ جانتے تھے اور ملت کی ترقی میں ان کے کردار سے بخوبی آگاہ تھے کہ جس ملت کے نوجوان بیدار، متحرک اور فعال ہوں وہ ملت اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کو بائیس برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، انہوں نے اس بات کا اندازہ کر لیا تھا کہ امریکہ پاکستان کو غلامی کی زنجیر میں باندھ کر اپنا دستِ نگربناناچاہتا ہے اس لئے ڈاکٹر نقوی نے اس وقت لوگوں میں امریکہ مردہ باد کا نعرہ اور اس کی وجہ اجاگر کی، پاکستان کے دشمنوں نے اس آواز کو دبانے کی کوشش کی اور انہیں بے جرم و خطا دن دہاڑے ایک مصروف ترین چوک پر گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
واضح رہے کہ شہید ڈاکٹر، بت شکن زمان حضرت امام خمینی (رح) کے سچے اورعملی جاں نثارتھے۔ وہ ایسے پاکستانی تھے جنہوں نے اپنے عمل سے انقلاب اسلامی اور نظریہ ولایت فقیہ سے اپنے اخلاص کو دوسروں پر ثابت کیا۔ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی کی ذات سے ان کے عشق اور محبت کیلئے ان کی زندگی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
سانحہ مکہ (جب حج کے موقع پر1987ء میں امام خمینی کے حکم پر نکلنے والے برات از مشرکین کے جلوس پر آل سعود کے اہلکاروں نے حملہ کیا اور چار سو سے زائد حجاج و مہمانان خدا کو شہید کرکے سرزمین امن کو خاک و خون میں غلطاں کیا) تو آل سعود کی طرف سے اہل ایران پر حج کی پابندی لگا دی گئی۔ لبنان کے نوجوانوں پر بھی عمر کے حساب سے پابندیاں لگائی گئیں۔ حضرت امام خمینی کی خواہش تھی کہ حج پر حسب دستور دنیا بھر سے آئے ہوئے حجاج کرام کو اصل حج یعنی برات از مشرکین کا پیغام یاد کروایا جائے، وہ پیغام جس کو پہنچاتے ہوئے چار سو سے زیادہ ایرانی حجاج نے اپنے خون کی قربانی دی تھی اور جائے امن پر، جہاں ایک چیونٹی کو مارنا بھی منع کیا گیا ہے، کو بلا جواز اور بلا جرم و خطا خاک و خون میں غلطاں کیا گیا تھا، اس پیغام کو پہنچانے کا انتظام و انصرام اور ذمہ داری ڈاکٹر محمد علی نقوی کے حصہ میں آئی۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی نے تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اس پیغام امام کو احسن طریقہ سے حجاج کرام تک پہنچایا اور اس موقعہ پر اسیر ہوئے۔ انہیں سزائے موت کا حکم ہوا، مگر انہیں خدا نے مزید کام کا موقعہ دیا اور وہ رہا ہوگئے۔ انہوں نے رہا ہونے کے بعد بھرپورکام کیا۔ لیکن 7 مارچ 1995ء کی دم صبح انہیں لاہور کے معروف یتیم خانہ چوک پر اپنے محافظ تقی حیدر سمیت شہید کر دیا گیا۔