پاکستان، کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے ریڈار ٹیکنالوجی کا استعمال
-
فائل فوٹو
لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پہلی بار سنتھیٹک اپرچر ریڈار ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما علی سدپارہ دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے ساتھ، کے ٹو کی چوٹی سرکرنے کی مہم کے دوران پانچ فروری سے لاپتہ ہیں۔
ان کی تلاش کا آپریشن اب تک کئی بار موسم کی خرابی کی وجہ سے روکنا پڑا ہے۔ گلگت بلتستان کے ہوم سیکریٹری محمد علی رندھاوا نے بتایا ہے کہ تینوں کوہ پیماؤں کی تلاش کا آپریشن جمعرات سے جدید ترین آلات کی مدد سے دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ریسکیو آپریشن میں مخصوص طیارے سے کام لیا جا رہا ہے جبکہ زمینی تلاش کے لئے ہائی پورٹرز بھی بیس کیمپ میں موجود ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق ریسکیو طیارے میں ایف ایل آئی آر سسٹم نصب ہے اور انفرڈ ریڈار ٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔
دنیا کی دوسری بلند چوٹی کے ٹو کی مہم جوئی کے دوران لاپتہ ہونے والے کوہ پیماؤں کے خاندان نے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لاپتہ کوہ پیماؤں کے برفانی غار بنا کر پناہ لیے ہونے کے امکان کا اظہار کیا ہے۔
لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پہلی بار سنتھیٹک اپرچر ریڈار ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق کے ٹو پر لاپتہ تینوں کوہ پیماؤں کے اہل خانہ نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ریسکیو آپریشن جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 4 روزہ مسلسل فضائی تلاش میں کچھ پتہ نہیں چل سکا۔
مشترکہ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ لاپتہ کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے پس پردہ بہت کام ہو رہا ہے، جدید نظام کے ذریعے پہاڑ کی بلندی پر ایک ایک انچ کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں، مائیکرو سیٹیلائٹ ارتھ آبزرویشن ٹیکنالوجی سے ہر مربع میٹر، ہر گھنٹہ تلاش کر سکتے ہیں، جن بلندیوں پر ہیلی کاپٹر کی پہنچ ممکن نہ ہو وہاں یہ ٹیکنالوجی بہت کارآمد ہے۔
اعلامیہ میں امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ کوہ پیماؤں نے برف کی غار بنائی ہو اور اس کے اندر پناہ لی ہو، برفانی غار میں کھانے کی چیزیں پانی گرم کرنے کی سہولت ہو تو زندہ رہا جا سکتا ہے۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ہم کوہ پیماؤں کے پاس موجود آلات سے اضافی معلومات حاصل کر رہے ہیں۔
دوسری طرف علی سد پارہ کے صاحبزادے ساجد سد پارہ نے کہا ہے کہ اب انہیں اپنے والد کے زندہ رہنے کی امید نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد اور دو غیر ملکی کوہ پیماؤں کے زندہ بچ جانے کے امکانات اب نہ کے برابر ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اب ان کوہ پیماؤں کی میتوں کو تلاش کیا جا رہا ہے۔