لمحۂ فکریہ
ہندوستان میں طلاق کے بڑھتے واقعات
ہندوستان میں طلاق کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ہندوستان میں شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے کیونکہ طلاق کسی بھی معاشرہ کے لئے کوئی مفید چیز نہیں ہے۔
ہندوستان کے انگریزی اخبار "ہندوستان ٹائمز" کی رپورٹ کے مطابق جنوبی ریاست کیرل میں 2014 میں طلاق کے 47525 واقعات ہوئے جن کی تعداد اگلے سال یعنی 2015 میں بڑھ کر 52541 ہوگئي۔ ریاست مہاراشٹر میں 2014 میں 22812 جوڑوں نے طلاق لی جبکہ 2015 میں 31000 طلاقیں ہوئيں۔ ریاست ہریانہ میں 2014 میں طلاق لینے والے افراد کی تعداد 9151 تھی جو 2015 میں بڑھ کر 12059 ہوگئي۔
خوش حال اور مستحکم خاندان معاشرہ کی مضبوط اکائي مانا جاتا ہے لیکن اگراسی اکائی کو گھن لگ جائے اور وہ کمزور ہوجائے تو اس اکائي پر قائم معاشرہ مستحکم نہیں رہ سکتا بلکہ تباہ و برباد ہو کر رہ جائےگا۔ اسی لئے مختلف ممالک میں طلاق کو اچھا اقدام نہیں مانا جاتا بلکہ طلاق کو مختلف طریقوں سے روکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شاید ہی کوئي معاشرہ ہو جس میں طلاق کو اچھی نظر سے دیکھا جاتا ہو۔
اگرطلاق دینے والے میاں بیوی صاحب اولاد بھی ہوں تو پھر طلاق کے نقصانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جو بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہتے ان میں برے افعال میں پڑ جانے کا امکان ماں باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں سے تین گنا زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس طرح کے بچوں میں یعنی طلاق کے سائے میں پرورش پانے والے بچوں میں احساس کمتری اور احساس محرومی بھی نسبتا̋ زیادہ ہوتا ہے۔ لوگوں میں احساس کمتری اور احساس محرومی کا وجود بھی معاشرہ کے لئے بہت نقصان دہ بلکہ تباہ کن ہے۔
بہرحال، ہندوستان میں طلاق کے واقعات میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اضافہ یقینا̋ لمحۂ فکریہ ہے اور تشویش کا باعث بھی۔ حکام اور عوام دونوں ہی کی طرف سے ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں طلاق کے واقعات میں کمی ہو۔ یہ نہ صرف میاں بیوی، ان کے بچوں اورمعاشرہ بلکہ خود ہندوستان کے لئے بھی بہتر ہوگا۔