پہلے تولو پھر بولو
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
یونانی فلسفی زینو کہتے ہیں کہ ہمیں دوکان اورایک زبان کا عطا کیا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ زیادہ سنیں اور کم بولیں۔ شاید اس بات سے (زینو) کا مقصد یہ ہو کہ پہلےسوچیں پھربولیں یعنی کم بولیں لیکن صحیح بولیں۔ کیونکہ انسان اپنی گفتگو سے اپنی شخصیت کا پتہ دیتا ہے۔
معروف ایرانی شاعرسعدی شیرازی کہتے ہیں کہ ( تامرد سخن نہ گفتہ باشد، عیب وہنرش نہفتہ باشد) یعنی جب تک انسان گفتگو نہیں کرتا اس کا عیب اوراس کا ہنرپوشیدہ رہتا ہے ۔ کلام کا حسن ، اورمؤثرجملوں کا استعمال اور دلکش فقرے بولنا گفتگو کا ہنرشمار ہوتاہے۔ اورہم سبھی اس بات میں کوشاں ہوتے اور یہ چاہتے ہیں کہ اس ہنر کے حامل بنیں ۔ افراد کے مابین رابطے کا ایک اہم اورعظیم حصّہ گفتگو اوربات چیت سے مختص ہے۔ معدودے چند افراد ہیں جو درست اور سنجیدہ گفتگو کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ اس لئے کہ مناسب طرزگفتگو سیکھنے سے آتا ہے اوراس ہنرکا فقدان روابط کے بے اثر اور منقطع ہونے اور بسا اوقات گھرانوں سے لے کرمعاشروں کی سطح پرمختلف گروہوں کے مابین تعلقات کشیدہ ہونے کا باعث بنتاہے-
گفتگو، انسان کی سماجی زندگی میں مفاہیم اورمطالب کے سمجھنے اورسمجھانے کا وسیلہ ہے۔ اور سماجی دائرہ جتنا وسیع ہوتا جائے گا آداب گفتگو سے واقفیت کی ضرورت کا احساس اتناہی زیادہ ہوتا جائے گا۔ لہذا اصول گفتگو سے واقفیت، اہداف تک جلد رسائی کا وسیلہ ہے ۔ گفتگو، جذبات و احساسات ، شخصیت، تہذیب وثقافت، اورانسان کے ذہن کے تصورات کی غماز ہے اوراس سے بڑھ کرمعاشروں کی تہذیب وتمدن کا مظہر ہے گفتگو کے بارے میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ انسان فکری رسائی و بلندئ نظر کے مطابق اپنی زبان پر کنٹرول اور قابو حاصل کرسکتاہے۔اسی لئے ہمیشہ اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اپنی زبان پرکنٹرول رکھیں۔ جیسا کہ امیرالمومنین حضرت علی (ع) فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی زبان پر قابو رکھے گا خدا اس کےعیب کی پردہ پوشی کرے گا۔
غالبا ہم سبھی لوگ اپنے گھرانے کی زندگی اور حتی معاشراتی سطح پر بھی زبان پرکنٹرول کے مثبت اور مفید نتائج اور زبان پر قابواور کنٹرول نہ کرنے کے نقصانات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ زبان کو آزاد چھوڑ دینا بہت ہی خطرناک ہے اسی لئے اسلامی تعلیمات میں زیادہ ترخاموش رہنے پرتاکید کی گئی ہے ہاں اگربولنا ہو تو کم اور صحیح اورحق کی بات بولی جائے ۔