تہمت، عظیم ترین گناہ
تحریر : حسین اختر
دین اسلام نے ہمیشہ اپنی پیروی کرنے والوں کو دوستی و محبت کا درس، اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کیا ہے اور انسانوں کو گناہوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے گناہان کبیرہ میں سے ایک بڑا گناہ " تہمت " ہے۔ جوانسان کی فردی اور اجتماعی زندگی پر زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص پر تہمت لگاتا ہے تو وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ خود اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے اور اپنی روح کو گناہوں سے آلودہ کرلیتا ہے ۔
فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بے گناہ پر تہمت لگانا عظیم پہاڑوں سے بھی زیادہ سنگین ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر تہمت ہے کیا ؟ تہمت کے معنی یہ ہیں کہ انسان کسی کی طرف ایسے عیب کی نسبت دے جو اس کے اندر نہ پائے جاتے ہوں ۔ تہمت گناہان کبیرہ میں سے ایک عظیم گناہ ہے اور قرآن کریم نے اس کی شدید مذمت کرتے ہوئےاس کے لئے سخت عذاب کاذکر کیا ہے۔ درحقیقت تہمت و بہتان، جھوٹ کی بدترین قسموں میں سے ہے اور اگر یہی بہتان ، انسان کی عدم موجودگی میں اس پر لگایا جائے تو وہ غیبت شمار ہوگی اور در اصل اس نے دو گناہ انجام دیئے ہیں۔
ایک روزفرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک صحابی آپ کے ساتھ کہیں جارہے تھےاور اس کے غلام اس سے آگے بڑھ گئے تھے اس نے اپنے غلاموں کو آواز دی لیکن غلاموں نے کوئی جواب نہ دیا اس نے تین مرتبہ انہیں پکارا لیکن جب ان کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو یہ شخص غصے سے چراغ پا ہوگیا اور اپنے غلام کو گالیاں دیں جودرحقیقت اس کی ماں پر تہمت تھی۔ راوی کا بیان ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے جب ان غیر شائستہ الفاظ کو سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور اسے ان غیرمہذب الفاظ کی جانب متوجہ کرایا مگر اس نے غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے توجیہیں کرنا شروع کردیں جب امام علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اپنی غلطی پرنادم نہیں ہے تو فرمایا: کہ تجھے اب اس بات کا حق نہیں کہ میرے ساتھ رہے ۔
تہمت معاشرے کی سلامتی کوجلد یا بدیرنقصان پہنچاتی ہے ، سماجی انصاف کو ختم کردیتی ہے ، حق کو باطل اورباطل کو حق بناکر پیش کرتی ہے ، تہمت انسان کو بغیر کسی جرم کے مجرم بناکر اس کی عزت و آبرو کو خاک میں ملادیتی ہے ۔ اگر معاشرے میں تہمت کا رواج عام ہوجائے اور عوام تہمت کو قبول کرکے اس پر یقین کرلیں تو حق ، باطل کے لباس میں اور باطل حق کے لباس میں نظر آئے گا۔
وہ معاشرہ ، جس میں تہمت کا رواج عام ہوگا اس میں حسن ظن کو سوء ظن کی نگاہ سے دیکھا جائے گا تو لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جائے گا اور معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا یعنی پھر ہر شخص کے اندر یہ جرات پیدا ہوجائے گی کہ وہ جس کے خلاف ، جو بھی چاہے گا زبان پر لائے گا اور اس پر جھوٹ ، بہتان اور الزام لگا دے گا۔