جھوٹ،تمام برائیوں کی جڑ
تحریر : حسین اختر
جھوٹ ایک بدترین عیب، سب سے بڑا گناہ اور بہت سے برے اور غیر پسندیدہ کاموں کا سرچشمہ ہے ۔ روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا اے اللہ کے رسول، میں ایک بے نمازي انسان ہوں ، ہمیشہ عفت کے خلاف امور انجام دیتا ہوں اور جھوٹ بھی بولتا ہوں مگر سب سے پہلے کس کام کو ترک کروں؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: سب سے پہلے تم جھوٹ کو ترک کردو، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے عہد کیا کہ اب ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا۔ ابھی کچھ ہی لمحے گذرے تھے کہ شیطان کے وسوسوں نے اس کے دل کو عفت کے برخلاف کام کرنے پر اکسادیا، مگر اسی وقت پیغمبراسلام سے کیا ہوا وعدہ اسے یاد آگيا اور پھر سوچنے لگا کہ اگر کل پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس بارے میں سوال کرلیا تو کیاکہوں گا، اگر یہ کہے کہ ہم نے یہ برا فعل انجام نہیں دیا ہے تو جھوٹ ہوگا اور اگر اس برے کام کے انجام دینے کا اقرار کرلیا تو سخت سزا ملے گی یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی خلاف شرع کام انجام دینا چاہتا تھا تو اسے فورا پیغمبر اسلام سے جھوٹ نہ بولنے کے متعلق کیا ہوا وعدہ یاد آجاتا تھا لہذا اس نے تمام گناہوں اور اخلاقی مفاسد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کردیا ۔
فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں : تمام برائیوں کو ایک کمرے میں بند کردیا گیا ہے اور اس کی کنجی جھوٹ کو قراردیا گیا ہے۔ جھوٹ کا دوسرے گناہوں سے ایک رابطہ یہ ہے کہ جھوٹا انسان ہمیشہ سچی بات کہنے سے گریز کرتا ہے کیونکہ اگر اس نے سچ بات کہی تو وہ ذلیل و رسوا ہوجائےگا اس لئے ہمیشہ جھوٹ کا سہارا لیتا ہے ، اسی لئے جھوٹ کو نفاق کا سرچشمہ بھی کہا گیا ہے ۔جھوٹ کے مقابلے میں سچ ہے جس کے معنی زبان اور دل کا ہماہنگ ہونا ہے جب کہ جھوٹ اس کے برخلاف ہے یعنی اس میں دل و زبان کے درمیان ہماہنگی نہیں پائی جاتی اور نفاق میں بھی ظاہر و باطن ایک دوسرے کے برخلاف ہوتے ہيں۔ یہی وجہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لوگوں نے سوال کیا کہ کیا ایک مومن شخص پر خوف کا غلبہ طاری ہوسکتا ہے ؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہاں، پھر لوگوں نے پوچھا کہ کیا مومن کنجوس ہوسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔ پھر لوگوں نے سوال کہ کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا: نہیں ہرگز نہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ اس کا جواب بھی بہت ہی سادہ سا ہے ۔
انسان کبھی فقر و فاقہ کے خوف کی وجہ سے جھوٹ بولتا ہے تو کھبی اپنے مقام و منصب کے چھین لئےجانے کی وجہ سے جھوٹ بولتا ہے تو کبھی مال و دولت اور جاہ و مقام سے شدید لگاؤ کی وجہ سے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے جب کہ حقیقی مومن وہ ہے جس نے اپنے پورے وجود کے ساتھ ایمان حاصل کیا ہے اور صرف خداوندعالم کی ذات والا صفات ہے جو اس کی تمام مشکلات و پریشانیوں کو حل کرتی ہے لیکن جھوٹا شخص اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنے کام کے نتیجے کے حصول میں جھوٹ کو بہترین اور موثر وسیلہ تصور کرتا ہے اور یہی شرک خفی اور خداوندعالم کے امور میں موثر ہونے کی بہ نسبت جھوٹے شخص کے ایمان کی کمزوری کی علامت ہے ۔اسی لئے فرزند رسول حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: جھوٹ ایمان کے مرکز کو تباہ و برباد کردیتا ہے۔ایک معاشرے کا سب سے اہم سرمایہ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد کرنا ہے جب کہ سب سے بدترین چیز جو اس سرمائے کو تباہی و بربادی کے دہانے تک لے جاتی ہے وہ جھوٹ ہے۔