محمد رضا پہلوی کے ایران سے فرار کا دن
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
قران حکیم و مجید کا یہ اٹل اعلان ہے کہ جاءالحق و زحقالباطل۔ آگیا حق اور مٹ گیا باطل ۔
فروری 1979 میں اس آیت کا مصداق ایران کی سرزمیں پر جلوہ گر ہوا ۔
26دی 1357 ہجری شمسی بمطابق پندرہ جنوری 1979 کو ایرانی عوام کی تحریک میں شدت آنے کے بعد شاہ ایران محمد رضا پہلوی نے علاج کے بہانے ایران سے راہ فرار اختیار کی ۔ اس نے ایسے عالم میں ایران سے فرار کیا جبکہ ایران کے تمام عوام شاہی نظام کے خاتمے اور اسلامی حکومت کے قیام کا مطالبہ کررہے تھے ۔
شاہ کے فرار سے ایرانی عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور اس کو انہوں نے اپنی اہم کامیابی قرار دیا ۔اس سے چند روز قبل حضرت امام خمینی (رح) نے جو اس وقت پیرس میں تھے اپنے ایک پیغام میں فرمایا تھا ۔ سلطنت سے کنارہ کشی کے بغیر شاہ کے فرارسے صورتحال میں تبدیلی نہیں آئے گی ۔پہلوی حکومت کا مکمل طور پر خاتمہ ضروری ہے ۔امام خمینی (رح) کے اس پیغام کے بعد عظیم الشان جلوس نکالا گيا ۔شاہ کے فرار کے بعد عوام خوشی کے نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اسلامی انقلاب کی مکمل کامیابی تک اپنے درمیان مکمل اتحاد و یک جہتی کا اعلان کیا ۔
بددیانت پہلوی حکمراں محمد رضا شاہ اور اس کا باپ ایرانی قوم کو اپنا غلام سمجھتے تھے اور اپنے آقا بڑے ''شیطان'' امریکہ اور اسرائیل کے اشاروں پر سرزمین ایران کے جیالے نوجوانوں اور غیرت مند عوام کا خون بہانے میں کوئی دریغ نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے اسلام اور آزادی کی ہر آواز کو سنگینوں، مشین گنوں اور دنیا کے جدید ترین مہلک اسلحوں کے بل پر دبانے کی کوشش کی۔ انسانی خون جس بے دردی سے بہایا گیا اور جبروتشدد اور ایذا رسانی کے جو غیر انسانی طریقے استعمال کئے گئے ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پہلوی حکمرانوں نے اپنی نام نہاد شان و شوکت کی خاطر سرزمین ایران کو موجودہ دور کے ''شیطانِ اعظم'' امریکہ اور اسرائیل کے قدموں میں ڈال دیا۔
اگر پہلوی حکمراں اور اس کے رشتے دار واقعی سرزمین ایران اور ایرانی قوم کے تئیں مخلص اور ہمدرد ہوتے تو انہیں اربوں ڈالر قومی سرمایہ غیر ملکی بینکوں میں جمع کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ خائن شاہ تمام قومی سرمایہ کو اپنا اور اپنے خاندان کی ملکیت سمجھتا تھا۔ جھوٹی شان و شوکت اور عیاشی میں قومی سرمائے کو پانی کی طرح بہایا جاتا تھا۔ ڈھائی ہزار سالہ جشن تاج پوشی میں، جس میں دنیا کے تمام ممالک کے حکمرانوں اور سرکردہ شخصیتوں کو مدعو کیا گیا، جس قدر شراب استعمال کی گئی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ رقص و سرود اور عیش و عشرت کی محفلیں گرم ہوئیں اور بیش قیمت تحائف اور نذرانوں سے مہمانوں کو نوازا گیا۔ قومی سرمائے کو عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کے بجائے عیش و عشرت اور لہو و لعب کی باتوں میں برباد کیا جاتا رہا۔
ملک کے عوام بھوکے مررہے تھے اور غیر ملکی بینکوں کے شاہی اکاؤنٹوں میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔ جب شاہ ایران سے فرار ہوا ہے اس وقت اس کے نام سے بائیس ارب ڈالر امریکہ اور سوئزرلینڈ کے بینکوں میں جمع تھے اور آج بھی بینکوں میں شاہ کے کھاتوں میں موجود ہیں۔ شاہ خائن نے اپنی ظلم و جابر حکومت کو قائم رکھنے کے لئے درندہ صفت اور سنگ دل انسانوں کا ایک گروہ اکٹھا کیا ہوا تھا۔اس میں شاہ کی خفیہ پولیس ساواک اپنے جبر وتشدد، ایذارسانی ، قتل و غارت گری اور دہشت گردی میں پیش پیش تھی۔ اس کے علاوہ سی۔ آئی۔ اے(امریکہ کی جاسوسی کی تنظیم) کی بھی شاہ خائن کو اپنے شیطانی عزائم کی تکمیل میں حمایت حاصل تھی۔ جب فوج اور پولیس میں خاص طور سے ان کے نوجوان طبقے میں شاہ نے حکومت سے بیزاری اور نفرت کے آثار دیکھے تو انہیں برطرف کرکے ان کی جگہوں پر اپنے زرخرید غلاموں کا تقررکیا۔
اپنے پرانے نمک خواروں، جن میں بڑے بڑے جنرل اور فوج و پولیس کے بعض اعلیٰ عہدیدار شامل تھے، ان کی ملازمت کی مدت ختم ہوجانے کے باوجود اعلیٰ عہدوں پر برقرار رکھا تاکہ نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ ان عہدوں سے محروم رہے۔ ان بوڑھے افسروں نے بھی اپنے آقا کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور اس کے ایک ادنیٰ سے اشارے پر غیرت مند نوجوان اور حریت پسند عوام، جن میں استاد، ڈاکٹر، وکیل، انجینئر، مذہبی رہنما، دینی طلبہ اور بعض دیگر طبقوں کے مرد اور عورتیں سبھی شامل تھے۔ ان کے خون کی ندیاں بہا کر خوب حقِ نمک ادا کیا۔
ہر فرعون کا انجام بہت عبرتناک ہوتا ہے رضا پہلوی کا انجام بھی ویسا ہی ہوا۔ لا تبدیل لسنت الله