خوشی اور غم قرآن کریم کی نظر میں
تحریر : حسین اختررضوی
قرآن کریم جس وقت لوگوں کو نیکی ، خود سازی، اصلاح، تہذیب نفس، خیر، عدالت اور ظلم و ستم سے جنگ کرنے کی دعوت دیتا ہے تو ان سے وعدہ کرتا ہے کہ ایک روز وہ آئے گا کہ تم بہت زیادہ خوشحال ہو گے ۔
خداوندعالم نے سورہ ہل اتی میں اہل بیت علیہم السلام کی تعریف کرنے کے بعد فرمایا : یہ اس کی محبت میں مسکین یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: ہم صرف اللہ کی مرضی کی خاطر تمہیں کھلاتے ہیں ورنہ نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ ، ہم اپنے پروردگار سے اس دن کے بارے میں ڈرتے ہیں جس دن چہرے بگڑ جائیں گے اور ان پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی ، تو خداوندعالم نے انہیں اس دن کی سختی سے بچالیا اور تازگی اور سرور عطا کردیا۔
یہ خداوند عالم کے بہترین اور لائق بندے ہیں، یہ انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہیں ، اسی وجہ سے اسلام ان کا تعارف کراتا ہے کہ ان سے زیادہ بہتر اور سزاوار کوئی نہیں ہے ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیرالمومنین(ع)، حضرت فاطمہ زہرا(س) اور حسنین علیہم السلام اس آیت کے مصداق ہیں ، یہ آیت ان کی شان میں نازل ہوئی ہے ،خداوند عالم فرماتا ہے : ہم نے ان کو روز قیامت کی سختیوں سے محفوظ کردیا اور ان کو خوشی اور خوشحالی عطا کردی“یہ بات دوسروں کو ترغیب دلانے کے لئے ارشاد فرمائی ہے تاکہ وہ بھی ایسا ہی کام انجام دیں،حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ اور حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو بھی اسی طرح غم کے بعد خوشی نصیب ہوئی تھی ۔
فرعون کی حکومت میں جہاں بنی اسرائیل کو غلام سمجھا جاتا تھا وہاں پر ایک مدت کے بعد پوشیدہ طور پرحضرت موسی علیہ السلام کی والدہ حاملہ ہوگئیں اور چونکہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کردیا جاتا تھا اس لئے حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ نے پوشیدہ طور سے اپنے بچے کو جنم دیا لیکن وہ پریشان تھیں کہ ابھی فرعون کے سپاہیوں کو معلوم ہوجائے گا اور وہ اس بچہ کا سر تن سے جدا کردیں گے ، ایک ایسی شدید پریشانی جسے مرد تصور ہی نہیں کرسکتے۔ اس وقت خداوند عالم سورہ قصص کی ساتویں آیت میں فرماتا ہے کہ: ہم نے مادر موسٰی کی طرف وحی کی کہ اپنے بچّے کو دودھ پلاؤ اور اس کے بعد جب اس کی زندگی کا خوف پیدا ہو تو اسے دریا میں ڈال دو اور بالکل ڈرو نہیں اور پریشان بھی نہ ہو کہ ہم اسے تمہاری طرف پلٹا دینے والے اور اسے مرسلین میں سے قرار دینے والے ہیں۔
ہم اس بچہ کو واپس تمہاری طرف پلٹائیں گے لہذا تم پریشان نہ ہو ، غم نہ کرو بلکہ خوشحال ہوجاؤ ۔ کس چیز پر خوش ہوجاؤ، اسی وعدہ پر جو ہم نے تمہیں دیا ہے کہ ہم تمہارے بچے کو تم تک واپس پلٹائیں گے اور صرف بچے ہی کو نہیں پلٹائیں گے بلکہ اس کا شمار بڑے انبیاء میں ہوگا ، خدواندعالم کی اس بشارت سے حضرت موسی کی والدہ کا دل مطمئن ہوگیا اور ان کو سکون مل گیا ۔
سورہ قصص کی تیرہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ پھر ہم نے موسٰی کو ان کی ماں کی طرف پلٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی ہوجائے اور وہ پریشان نہ رہیں ۔ قرآن کریم کی چند آیتیں انہی تعبیرات میں اسی واقعے سے متعلق نقل ہوئی ہیں ۔ خداوند عالم ، جس وقت اپنے فرمانبردار بندے جیسے حضرت موسی کی والدہ پر احسان کرنا چاہتا ہے تو اس طرح ان کے دلوں سے پریشانیوں کو ختم کردیتا ہے اور ان کو خوشحال کردیتا ہے ۔ اگر یہ خوشحالی مطلوب نہ ہوتی تو قرآن کریم یہ احسان نہ رکھتا کہ ہم نے حضرت موسی کی والدہ کی اس طرح خدمت کی ۔
اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ کا بھی واقعہ ہے ۔ جس وقت حضرت مریم علیہا السلام بغیر شوہر کے حاملہ ہوگئیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آگیا تو آپ اس بچے کی ولادت کی وجہ سے بہت پریشان ہوئیں کہ ابھی سب لوگ آپ پر بہت زیادہ تہمتیں لگائیں گے ، جو عورت اپنی پیدائش سے لے کر آخر عمر تک عفت و پاکیزگی کا نمونہ ہو اس پر اس طرح کی تہمتیں لگائی جائیں ، تو یہ مرحلہ اس عورت کے لئے بہت سخت اور پریشانی کا باعث بنے گا ۔
قرآن کریم حضرت مریم کے اس وقت کو یاد کرتا ہے اور ان کے بقول نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : اے کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور یہ دن نہ دیکھتی! عام مومنین بھی خداوند عالم سے موت طلب نہیں کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ حیات و زندگی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اگر وہ موت کو طلب کریں گے تو یہ ناشکری ہوگی لہذا انسان بہت سخت وقت میں گرفتار ہونے پر ہی یہ دعا کرتا ہے کہ خدایا ! مجھے موت دیدے ، چہ جائیکہ حضرت مریم علیہا السلام دعا کریں؟ پھر وضع حمل کا وقت انہیں ایک کھجور کی شاخ کے قریب لے آیا تو انہوں نے کہا کہ اے کاش میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور بالکل فراموش کردینے کے قابل ہوگئی ہوتی ، اور لوگ یہ نہ کہتے کہ یہ بچہ کہاں سے لائی ہو ، ایسی حالت میں آپ سے خطاب ہوتا ہے :اے مریم تم پریشان نہ ہو ہم نے تمہارے قدموں میں چشمہ جاری کردیا ہے تم خرمے کے درخت کو ہلاؤ اس سے تازہ تازہ خرمے گر یں گے ، پھر اسے کھاؤ اور چشمے سے پانی پیئو اور اپنی آنکھوں کو ٹھنڈی رکھو ۔شاید اسی الہی الہام کے ذریعے حضرت مریم کی روح میں تصرف کرکے کلام خدا نے ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کردیا تاکہ ان کی پریشانی دور ہوجائے اور ان کی روح خوشحال ہوجائے ۔ اس کے بعد فرمایا : اگر لوگ تمہارے پاس آئیں اور کہیں کہ یہ بچہ کہاں سے لائی ہو تو کہ دینا کہ اس بچے سے خود ہی معلوم کرلو، بچے نے گہوارہ میں بولنا شروع کیا اور کہا : ” َ إِنِّی عَبْدُ اللَّہِ آتانِیَ الْکِتابَ وَ جَعَلَنی نَبِیًّا میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب دی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے ۔
یہاں ہماری بحث سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کی پریشانیوں اورغموں کی حالت میں ان دونوں عورتوں پر خدا کا لطف ہوا اور ان کا غم و اندوہ برطرف ہوگیا اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگیں ۔ لہذا معلوم ہوا کہ اگر انسان خدا پر توکل رکھے اور صدق دل سے اپنے تمام معاملات کو خدا کے حوالے کردے تو ہمیشہ خوش و خرم رہے گا اور خوشیاں اس کے نقش قدم چومیں گی۔