یکم فروری بانی انقلاب اسلامی کی وطن واپسی کا دن
تحریر: نوید حیدر تقوی
حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا فیصلہ کرلیا اور ایرانی قوم کے نام اپنے پیغامات میں فرمایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ان تقدیر ساز اور فیصلہ کن ایام میں اپنے عوام کے درمیان رہیں ۔
بختیار کی حکومت نے جنرل ہایزر کی ہم آہنگی سے ملک کے تمام ہوائی اڈوں کو غیر ملکی پروازوں کے لئے بند کردیا تھا ۔
مگر بختیار کی حکومت نے بہت جلد پسپائی اختیار کرلی اور عوام کے مطالبات کے سامنے وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا۔
بالآخر امام خمینی (رح)12بہمن1357ہجری شمسی مطابق یکم فروری1979 کو14چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد فاتحانہ انداز میں ایران واپس تشریف لائے۔
ایرانی عوام نے آپ کا ایسا عدیم المثال اور شاندار تاریخی استقبال کیا کہ مغربی خبر رساں ایجنسیاں بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکیں اور خود مغربی ذرائع ابلاغ کا کہنا تھا کہ تہران میں چالیس سے ساٹھ لاکھ افراد نے امام خمینی (رح) کا والہانہ استقبال کیا ۔
عشرۂ فجر کے پہلے دن یعنی یکم فروری سن 1979 مطابق 12 بہمن 1357 ھ ش کو بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی (رح) کی وطن واپسی متعدد برکات کا موجب بنی جن میں سے ایک یہ ہےکہ اسلامی بیداری میں فروغ آیا۔
حضرت امام خمینی (رح) کی تعلیمات کے نتیجے میں اسلامی بیداری میں تیزی پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ عالمی سطح تک پھیل گیا ۔
قائد انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای سمیت بہت سے مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ عصر حاضر میں دینی حیات کی تجدید کا آغاز ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی سے ہوا ہے ۔
آسٹریا میں رہائش پذیر مسلمان دانشور محمد حسین کہتے ہیں کہ اگر عصر حاضر میں دینی تشخص کے احیاء کے لئے کوئی تاریخ مقرر کی جائے تو وہ 1979 کا سال ہوگا ۔ یعنی جس سال ایران میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا اور تمام ادیان کی تعلیمات کے سلسلے میں عظیم تحریکوں کا باعث بنا انقلاب اسلامی نے دنیا میں دینی فکر کا احیاء کیا ہے ۔
ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے نے اکیسویں صدی کے آغاز کی مناسبت سے ایک ڈاکومنٹری نشر کی جس میں دینی فکر کے احیاء کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (رح) کے عظیم کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گيا کہ اسلامی انقلاب صرف ایرانی عوام کے لئے ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام ادیان کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ ساری دنیا میں کروڑوں لوگوں میں مذہب کا رجحان پیدا ہوا دنیا بھر کے عیسائیوں ، یہودیوں اور حتی ہندوؤں نے اپنے اپنے دین و مذہب کا رخ کیا ۔
امریکی مسلمان دانشور پروفیسر حمید مولانا ،حضرت امام خمینی (رح) کے اس کردار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یورپ میں حالیہ صدیوں میں عالم اسلام میں صدر اسلام کے بعد حضرت امام خمینی (رح) کی طرح کوئی ایسی شخصیت نظر نہیں آتی ہے ۔ جس کی تحریک ، افکار، کارکردگی اور تعلیمات عالمی سطح پر مؤثر ہوئی ہوں ۔
امام خمینی (رح) نے اپنی منفرد خصوصیات کے ساتھ روشنی پھیلائي ۔آپ کسی بھی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوئے آپ نے اپنی سادہ زندگی اور تقوی و اخلاق کے ساتھ عالمی سطح پر طاقت کا مفہوم ہی بدل دیا اور طاقت کے مادی اور ظاہری پہلوؤں کو کوئی اہمیت نہ دی ۔
حضرت امام خمینی (رح) کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل تھی ۔
جبکہ گذشتہ چھ سات صدیوں میں کوئی ایک بھی دینی و علمی شخصیت ایسی نظر نہیں آتی جس نے انقلاب برپا کیا ہو اوراس کو اس کے مخالفین نے بھی سراہا ہو ۔امام خمینی (رح) کی دینی و سیاسی قیادت کو عالمی سطح پر تسلیم بھی کیا گیا اور حالیہ صدیوں میں آپ کی قیادت کی کوئی مثال بھی نہیں ملتی ہے ۔
پروفیسر حمید مولانا امت اسلامیہ خصوصا" مستضعفین کے ساتھ حضرت امام خمینی (رح) کے تعلق کو مسلم اقوام کی بیداری کے سلسلے میں امام خمینی (رح) کی ایک اور بے مثال صلاحیت قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گذشتہ دو صدیوں کے دوران کوئي بھی انقلابی لیڈر لوگوں کے ساتھ ایسا تعلق قائم نہیں کرسکا ۔
حضرت امام خمینی (رح) نے قرآنی تعلیمات کو انتہائی عام فہم زبان میں لوگوں تک پہنچا دیا اور یہ خود انقلاب اسلامی کی کامیابی کا سبب تھا ۔اقوام کو اپنی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں دوسری تہذیبوں اور قوموں کے ساتھ آپ کا طرز گفتگو بھی مؤثر تھا ۔
حضرت امام خمینی (رح) نے سابق سوویت یونین کے آخری رہنما گورباچوف کے نام خط اور ویٹکن کو اپنا پیغام بھیج کر اسلامی نظام کے سادہ اورانسانی رابطے کی عملی مثالیں پیش کیں ۔ حضرت امام خمینی (رح) ایسے واحد مفکر تھے جو نہ صرف نظریات پیش کرتے تھے بلکہ اپنے نظریات کو عملی جامہ بھی پہناتے تھے ۔آپ نے اپنے زمانے کی بڑی سیاسی ، سماجی اور اقتصادی طاقتوں کی بنیادیں ہلا دیں اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور مستضعفین کو موضوع بنا دیا ۔
آج افریقہ کے دور دراز علاقوں میں بھی حضرت امام خمینی (رح) کے اس کردار کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپ نے اسلامی بیداری کے سلسلے میں ادا کیا ہے۔