Feb ۰۶, ۲۰۱۷ ۲۲:۵۰ Asia/Tehran
  • اسلامی تربیت اور اس کے آثار

تحریر : حسین اختررضوی

  بسم اللہ الرحمن الرحیم لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم یتلواعلیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔ سورہ  آل عمران 164 ۔

خدانے ایمانداروں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے لۓ ان ہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا جو انہیں خدا کی آيتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کی طبیعت کو پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں عقل کی باتیں سکھاتا ہے ۔

دین اسلام بھی دیگر آسمانی مذاہب کی طرح انسان کو آلودگیوں اور انحراف سے بچاکر اسے الہی راستے یعنی عالم خلقت کے فطری اصولوں پر چلانے کے سوا کوئی اور ہدف نہیں رکھتا یعنی اسلام کی ذمہ داری انسان کی تعلیم و تربیت ہے۔اسلام کی تعلیمی اور تربیتی روشیں دنیا کی روشوں سے الگ بلکہ بے نظیر ہیں ، مرحوم زرین کوب لکھتے ہیں کہ

"عیسائیت کے برخلاف جو صرف دینی نقطہ نگاہ سےانسانوں کی تربیت و تعلیم کا قائل تھا جس کی بناپر ہی یورپ آخر کار بے دین ہوکر رہ گیا ،اسلام دنیوي امور پر بھی خاص توجہ کرتا ہے اور یہ امر اس بات کا باعث بنا کہ مسلمانوں کے درمیان دینی اور دنیوی امور سے ترکیب یافتہ متوازن صورتحال وجود میں آۓ۔اسلام میں تربیتی احکام انسانی فطرت کے تمام امور کو شامل ہیں ،اسلام ان تمام چیزوں پر جو فطرت انسان سے جنم لیتی ہیں خاص توجہ رکھتاہے ان امور کا انسان اور اس کی زندگي کے حقائق پر مثبت اثر پڑتاہے جس کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں دیکھی جاسکتی۔

اسلامی تعلیم و تربیت کا ایک عدیم المثال نمونہ صدر اسلام کی مسلمان قوم ہے جو گمراہی وجہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکل کر کمال کی اعلی منازل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی اسلام سے پہلے اس کا کام آپس میں جنگ و قتال کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا اسی قوم نے اسلامی تربیت کے زیر اثر ایسی عظیم تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی جو بہت کم عرصے میں ساری دنیا پر چھا گئي اور اخلاق و انسانی اقدار کے لحاظ سےایسا نمونہ عمل بن گئي جو نہ اس سے پہلے دیکھاگيا تھا نہ اس کے بعد،اسلامی طریقہ تربیت انسانی خلقت و فطرت کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرنےسے عبارت ہے ۔

اسلام انسان کی کسی بھی ضرورت سے غفلت نہیں کرتاہے اس کے جسم عقل نفسیات معنویات و مادیات یعنی حیات کے تمام شعبوں پر بھرپور توجہ رکھتاہے ،اسلامی تربیت کے بارے میں رسول اسلام صلی اللہ وعلیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہی کافی ہے کہ آپ فرماتے ہیں مجھے مکارم اخلاق کو کمال تک پہنچانے کے لۓ بھیجا گیا ہے۔ قرآن میں والدین کو مربی قرار دیا گیا ہے اور ان کی قدر و منزلت کا اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ خدا نے بارہا جہان شرک سے نہی اور اپنی عبادت کا حکم دیا ہے اس کے بعد والدین کے حق میں احسان و نیکی کرنے کا امر فرمایا ہے اس سے اسلام میں تربیت کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

تربیت کے اصطلاحی معنی بیان کرنےمیں ماہرین و اصحاب نظر کے درمیان اتفاق و اشتراک پایا جاتا ہے ، متقدم و متاخر علماء و دانشوروں نے گرچہ مختلف تعبیریں استعمال کی ہیں تاہم ایک ہی بات کہی ہے یہاں پر ہم تربیت کی بعض تعریفیں پیش کر رہے ہیں ۔

اخوان الصفا و خلان الوفاء کی نظر میں تربیت ان امور کو کہتے ہیں جو انسان کی روحانی شخصیت کو پروان چڑھانے میں موثر واقع ہوتے ہیں ،آیۃاللہ شہید مطہری کا خیال ہے کہ تربیت انسان کی حقیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کا نام ہے، ایسی صلاحیتیں جو بالقوہ جانداروں (انسان حیوان و پیڑپودوں ) میں موجود ہوں انہیں بالفعل پروان چڑھانے کو تربیت کہتے ہیں بنابریں تربیت صرف جانداروں سے مختص ہوتی ہے ۔

مرحوم ڈاکٹرشریعتی نے تربیت کے بارے میں خوبصورت اور دلچسپ تعبیر استعمال کی ہے وہ کہتے ہیں کہ تربیت انسانی روح کو خاص اہداف کے لۓ عمدا خاص شکل دینے کو کہتے ہیں ،کیونکہ اگر انسان کو آزاد چھوڑدیا جائے تو وہ اس طرح پلے بڑھے گا کہ اس کی شخصیت سے کوئي فائدہ نہیں پہنچے گا لہذا اس کی شخصیت کو ایسی شکل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے کہ وہ مفید واقع ہو۔ پس تربیت ایسا علم ہے جس کا ہدف و مقصد سلامت جسم ، پرورش عقل اور تجربوں نیز نیک صفات میں اضافہ کرنے کے لحاظ سے انسان کو کمال کے اعلی ترین ممکنہ درجے تک پہنچانا ہے

ویبسٹر انٹرنیشنل ڈکشنری میں education کے ذیل میں چار تعبیریں لائي گئی ہیں جو حسب ذیل ہیں

الف: تعلیم ،تربیت کے عملی مرحلہ کو کہتے ہیں جیسے کسی بچے یا جانور کی تربیت ۔

ب:ایسے مختلف مراحل جن میں علم، مہارت ،لیاقت اور اخلاق حسنہ حاصل کۓ جائيں یہ مراحل باضابطہ دورہ تعلیم مکمل کرنے پر اختتام پذیر ہوتے ہیں ۔

ج: ایسا مرحلہ جس میں تعلیم و تربیت مکمل ہوگئي ہو یا تعلیم و تربیت اس کا ہدف ہو۔

د: مجموعی طور پر اسلامی تعلیمی اور تربیتی نظام کو کہا جاتا ہے

                                          

 

ٹیگس