Feb ۰۷, ۲۰۱۷ ۲۲:۳۱ Asia/Tehran
  • دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو ( حصہ دوم )

تحریر : حسین اختررضوی

لوگوں کے عیوب کی تلاش و جستجو نہ صرف یہ کہ معاشرے کی تباہی و بربادی کا باعث بنتی ہیں بلکہ برے اخلاق اور گناہوں کے اضافے کا سبب بھی قرار پاتی ہیں ۔ عیب جوئي لوگوں کو ایک دوسرے سے بدبین کردیتی ہے ، لوگوں کے دلوں میں بغض و نفرت اور کینہ و دشمنی کا بیج بو دیتی ہے اور لوگوں کو انتقام لینے پر اکساتی ہے۔

قرآن کریم میں سورہ نور کی انیسویں آیت میں ارشاد الہی ہوتا ہے: جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبانِ ایمان میں بدکاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے بڑا دردناک عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور اللہ سب کچھ جانتا ہے صرف تم نہیں جانتے ہو۔ یہاں پر ایک بہترین قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو لوگ گناہ اور آلودگیوں کو مومنین کے درمیان پھیلاتے ہیں وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے بلکہ قرآن کریم کا فرمان یہ ہے کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ صاحبان ایمان میں بد کاری کا چرچا پھیل جائے ان کے لئے دردناک عذاب ہے کیونکہ خداوند عالم کے نزدیک ایک انسان کی عزت و آبرو کی بہت زيادہ اہمیت ہے اور وہ ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرے گا کہ جو کچھ بھی ایک مسلمان کے بارے میں کہا یا سنا جائے اس کو دوسروں کے سامنے بیان کیا جائے ۔

فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام اس آیت کی تفسیر و تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی بندہ مومن کی غلطیوں اور لغزشوں کو دیکھے یا کسی سے سنے اور پھر اسے لوگوں کے سامنے بیان کرے تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہوگا جس کا خداوندعالم نے اس آيت میں وعدہ کیا ہے یعنی ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام بھی عیب جوئي کو ایک عظیم گناہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: دوسروں کے عیوب اور نقا‏ئص تلاش کرنا خود بدترین عیب اور گناہ شمار ہوتا ہے۔

عیوب کی تلاش و جستجو اخلاقی رذائل میں سے ایک ہے جب کہ لوگوں کو راہ راست پر لانا ، ان کی ہدایت کرنا، نصیحت اور امر بالمعروف کے ذریعے ان کا اپنے عیوب کی طرف متوجہ ہونا اسلامی فریضہ شمار ہوتا ہے لوگوں کو ان کے عیوب کی جانب توجہ دلانا اتنا زيادہ اہم اور اہمیت کا حامل ہے کہ فرزند رسول حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اسے ایک عظیم تحفہ قرار دیتے ہوئے کہ جسے ایک شخص دوسرے شخص کو دے سکتا ہے فرمایا ہے : خداوند عالم اس شخص کی مغفرت فرمائے جو میرے عیوب کو تحفہ کے طور مجھے عطا کرے ۔ اس بناء پر اگر کسی شخص کے عیب کے بارے میں اسے پوشیدہ طور پر آگاہ کیا جا‏ئے اور وہ عقلمند اور ہوشیار ہو تو وہ اپنے دوست و خیرخواہ کے اس عمل سے نہ صرف یہ کہ ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے ۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص تمہارے عیوب سے تمہیں آگاہ و باخبر کرے اور تمہاری عزت و آبرو کی حفاظت کرے تو جان لو کہ وہی تمہارا حقیقی دوست ہے لہذا اس کی محافظت کرو۔ البتہ جیسا کہ بیان کیا گيا ہے کہ عیوب کی نشاندہی یا یاد آوری پوشیدہ اور لوگوں کی نظروں سے چھپا کر ہونا چاہیئے ۔

فرزند رسول حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے دینی بھائی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرنے کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جو اپنے برادر ایمانی کی پوشیدہ طور پر نصیحت کرے اس نے اسے زينت بخشی ہے لیکن اگر اس نے سب کے سامنے نصیحت کی تو اس نے اس کی ناکامی کی راہ ہموار کی ہے۔

 

        

 

ٹیگس