Feb ۱۷, ۲۰۱۷ ۲۲:۲۱ Asia/Tehran
  • مسلمانوں کے درمیان اتحاد حکمت عملی یا سیاسی مصلحت

تحریر : ڈاکٹر آر نقوی

قرآن کریم کی اہم تعلیمات میں سے ایک وحدت و اتحاد ہے اگر چہ لفظ " وحدت " کا قرآن کریم میں ذکر نہیں ہوا لیکن معنی و مفاہیم کے اعتبار سے بہت سی سوروں میں ذکر ہوا ہے ۔

سورہ آل عمران کی آیت میں آیا ہے: اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔ درحقیقت اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ ایک طرف لوگوں کو علم و عمل اور سعادت کی دعوت دے اور دوسری جانب جہالت اور اختلاف و دشمنی سے لوگوں کو محفوظ رکھے ۔ عربوں کے درمیان دشمنی و عداوت کی اہم وجہ قومی تعصب اور بغض و حسد تھا لیکن اسلام نے انسانوں کے مقصد تخلیق ، خدا تک پہنچنے کا ذریعہ اور دنیاوی زندگی میں کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ آپس میں بھائی چارگي اور مساوات کو قرار دیا ہے اور اسی کی طرف دعوت دی ہے۔

قرآن کریم نے مسلمانوں کو اتحاد و وحدت کی تاکید کے علاوہ سورہ آل عمران کی چونسٹھویں آیت میں نصیحت بھی کی ہے کہ کلمہ توحید کی بنیاد پر دوسرے مذاہب کے افراد کے ساتھ بھی مل جل کر رہیں۔ ارشاد الہی ہوتا ہے: اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہلِ کتاب آؤ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں۔اس لئے معمولی اختلاف بھی مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق میں رکاوٹ کا سبب نہیں بننا چاہیئے۔

مسلمانوں کی ثقافت و تہذیب تقریبا ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں جو کائنات کے بارے میں ایک ہی تصور رکھتے ہیں ان کا ہرہر فرد خدائے واحد کی عبادت کرتا ہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھتا ہے سب کی کتاب قرآن کریم اور قبلہ کعبہ ہے ، تمام مسلمان ایک ساتھ مل جل کر حج جیسی عظیم عبادت کے مناسک بجالاتے ہیں ایک طرح نماز پڑھتے ہیں اور ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور اگر چہ بعض جزئی امور کے علاوہ ان کے درمیان کوئی بھی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے ۔

مسلمانوں کے درمیان اتحاد حکمت عملی یا سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پر نہیں ہے یہ اتحاد دو سیاسی گروہوں کے ایک مشترکہ مقصد تک پہنچنے کی طرح نہیں ہے مثلا اگر اسلامی معاشرے میں دو سیاسی گروہ موجود ہوں جس میں سے ایک بے دین اور ملحد ہو اور دوسرا گروہ مسلمان اور یکتا پرست تو ان دونوں کے درمیان اتحاد وہ ہی نہیں ہوسکتا چنانچہ بانی انقلاب اسلامی حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ایران کے کمیونسٹوں کی جانب کہ جو شہنشاہی نظام سے نبرد آزما تھے اخوت و برادری کا ہاتھ نہیں بڑھایا اور نہ ہی شہنشاہیت سے مقابلے کے میدان میں مسلمانوں کو ان سے ملحق و متحد فرمایا۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی سے چند ماہ قبل کسی نے امام خمینی رضوان اللہ علیہ سے سوال کیا کہ کیا آپ ان لوگوں کے ساتھ کہ جو مارکسیزم نظریئے کے ماننے والے ہیں تعاون کرتے ہیں ؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا: ہمارا ہدف و مقصد ان کے ہدف و مقصد سے الگ ہے ہم اسلام کے نظریئے پر اعتماد کرتے ہیں اور توحید کے قائل ہیں جب کہ وہ دونوں نظریوں کے مخالف ہیں ، ہمارے احکام، اسلامی احکام ہیں لیکن وہ اسلام کو نہیں مانتے لہذا ہم ان سے تعاون و حمایت کا ارادہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا تعاون کرتے ہیں اور آئندہ بھی کبھی ان سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے ( صحیفہ نور ج 4 ص 37) لہذا اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام مقدس کے مطابق وحدت، حکمت عملی اور عارضی نہیں ہے بلکہ ایک مضبوط اور پائدار حکمت عملی ہے جو معاشرے کے افراد کو حقیقی وحدت و انسجام کی لڑیوں میں پروتی ہے اور دین کے حقائق کے قبول کرنے میں لوگوں کی صلاحیتوں میں ترقی و پیشرفت کو اجاگر کرکے بہترین شرائط و وسائل فراہم کرتی ہیں تاکہ انسان آزادی کے ساتھ دین حقہ کو قبول کرسکے ، اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اتحاد و وحدت کو وجود بخشنا قرآن کریم کے مطابق تمام مسلمانوں کا اہم فریضہ ہے سورہ آل عمران میں ارشاد احدیت ہوتا ہے:  وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ۔ اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔

 

 

ٹیگس