سوء ظن، غیر اخلاقی اور نا پسندیدہ عمل
تحریر : حسین اختررضوی
سوء ظن کے معنی بدگمانی کے ہیں ۔قرآن کریم میں جہاں بدگمانی سے روکا گیا ہے ، وہیں سوء ظن کے بجائے صرف لفظ ظن ہی کا لفظ استعمال ہواہے۔قرآن کریم میں ارشاد الہی ہوتا ہے: اے ایمان والو، کثرت گمان سے بچو، کیونکہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔بدگمانی کی کثرت سے اس لئے روکا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں خطا کا امکان ہوتا ہے۔ اگر ہمارا گمان صحیح بھی ہے تب بھی اس میں یہ خرابی ضرور موجود ہے کہ وہ ہمارا گمان ہے، کسی ٹھوس شاہد و دلیل پرمبنی نہیں ہے۔ مومن کو اپنی آراء کو حتی الامکان ٹھوس بنیادوں پر استوار کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے: جس چیز کا تمھیں علم نہیں، اس کے درپے نہ رہو کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر چیز سے سوال کیا جائے گا۔
قرآن کریم نے گمانوں کو قابل مواخذہ قراردیا ہے۔ چونکہ ہمارے گمان بے بنیاد ہوتے ہیں، اس لئے ہم یہ نہیں جان سکتے کہ کون سا گمان گناہ ہے اور کون سا نہیں۔ یعنی جب ہمیں حقیقت کا علم ہوگا تب ہمیں معلوم ہوگا کہ ہم غلط سوچ رہے تھے یا صحیح، اسی لئے قرآن مجید نے یہ نہیں کہا کہ بدگمانی کو ترک کرو بلکہ حکم دیا کہ بہت زیادہ گمان نہ کیا کرو۔ کیونکہ ان میں سے اکثر غلط ہی ہوں گے۔ قرآن کریم نے تو گمانوں میں سے بہت سے گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے۔ صرف اس لئے کہ وہ بلا دلیل بنائے گئے ہیں۔
گمانوں کے مواخذہ کی سب سے بڑی وجہ ان کے ہمارے رویوں پر پڑنے والے اثرات ہیں۔ اسی طرح گمانوں کی وجہ سے ہم ایسے عمل کے مرتکب ہوجاتے ہیں جو برے ہوتے ہے۔ ان میں سب سے بڑا نقصان ناانصافی ہے۔گمانوں سے ہونے والا دوسرا بڑا نقصان ہمارے تعلقات میں خرابی ہے۔ ہمارے تعلقات میں اہم چیز ہماری رائے ہوتی ہے ۔یعنی اگر کسی کے بارے میں ہماری رائے اچھی ہوگی تو ہم اس سے اچھے طریقے سے ملیں گے اور اگر ہماری رائے اس کے بارے میں اچھی نہیں ہو گی ۔ تو ہم اچھے طریقے سے نہیں مل سکیں گے ۔اس طرح سے ہمارے گمان ہمارے رویوں کو خراب کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے گمان ہی کی بنا پر دوسرے سے معاملات کرنے لگ جاتے ہیں ۔ جس سے وہ گناہ کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔
یعنی اگر ایک آدمی نے برائی نہیں کی مگر ہم نے گمان ہی گمان میں اس کو مجرم بنا لیا ہے تو اب اس کے ساتھ ہمارا رویہ بگڑ جائے گا جو بلاسبب ہوگا۔ برے رویے کی بناء پر ہم گناہ مول لے لیتے ہیں۔ اس پہلو سے دیکھیں تو محض گمان بھی دراصل ان گناہوں میں سے ایک ہے، جن کے بارے میں قرآن کریم سورہ حجرات کی دوسری آيت میں فرماتا ہے" تمھیں شعور بھی نہیں ہوتا، مگر وہ تمھارے اعمال کو ہڑپ کرجاتے ہیں۔
ہم اپنے گمانوں کی مدد سے کبھی تو بے گناہ کو گناہگار بنا دیتے ہیں، اور کبھی کم غلطیاں کرنے والوں کو زیادہ بڑی غلطی کا مجرم ٹھہرادیتے ہیں، یعنی اگر ایک آدمی سے غلطی ہوگئی تو ہم اسے یہ خیال کرکے کہ اس سے ہماری دشمنی ہے۔ اس کے جرم کی سنگینی میں اضافہ کردیتے ہیں۔ کسی کے بارے میں گمان کرنا غیر اخلاقی اورنا پسند یدہ عمل ہے۔ دین اسلام میں اخلاقی خرابی کو گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی اس پر باز پرس ہوگی۔ گمانوں کی کثرت بذات خود ناپسندیدہ چیز ہے۔ اس لئے کہ مومن گمانوں اور خیالات پر نہیں جیتا بلکہ اس کی زندگی ٹھوس حقائق پر استوارہوتی ہے۔