جشن ریختہ: غالب کے شعر نے مقدمہ کی سماعت کا وقت بدل دیا
تحریر: م۔ ہاشم
ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں سالانہ شاندار جشن ریختہ منعقد ہوا۔ تین روزہ ”جشن ریختہ 2017“ دہلی کے اندرا گاندھی نیشنل سینٹرفار دی آرٹز(آئي۔جی۔این۔سی۔اے۔) میں 17 سے 19 فروری تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا جس میں بڑی تعداد میں سماج کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اردو دوست افراد نے شرکت کی۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ریختہ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقد ہونے والے اردو کے اس عظیم جشن کی افتتاحیہ تقریب کا آغاز معروف شاعر اور نغمہ نگار گلزار اور سرود نواز استاد امجد علی خان کی گفتگو سے ہوا۔
جشن ریختہ 2017 کے اہم پروگرام ’اردو کا عدالتی لہجہ‘ میں ہندوستان کے سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر بھی شریک ہوئے اور انہوں نے اردو سے اپنی وابستگي کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک عدالتی کارروائي کے دوران وکیل سے مرزا غالب کی شاعری سن کر مقدمہ کی جلد سماعت کے لئے راضی ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ” میں دہلی ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کر رہا تھا اور وکیل جلدی تاریخ کی فریاد کر رہے تھے۔ میں نے کہا کہ میرا کیلینڈر اس کی اجازت نہیں دیتا اور کیس کی سماعت 6 مہینے کے لئے ملتوی کردی۔“ ان کا کہنا تھا کہ ” جب میں عدالت کے کمرہ سے باہر نکلنے لگا تو میں نے وکیل کو غالب کا کلام ’ آہ کو چاہئے اک عمر اثر ہونے تک‘ گنگناتے ہوئے سنا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے پورا شعر سنا سکتے ہیں؟ انہوں نے سنا دیا۔ پھر میں نے کیس کی سماعت اگلے ہفتے درج کرنے کا حکم دے دیا۔“ زبان کے طور پر اردو کے اظہار رائے کی طاقت کے بارے میں سابق چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے کہا کہ اگر ایک تصویر ہزار الفاظ کی طرح ہے تو زبان میں ایک شاعری دو ہزار الفاظ جیسی ہے اور وکیل عدالتی کمرہ میں بہتر بحث کے لئے ایسے شعر و شاعری کا استعمال کر سکتے ہیں۔