Mar ۰۷, ۲۰۱۷ ۲۳:۰۸ Asia/Tehran
  • انسان اور مثالی معاشرے کی تشکیل

تحریر : حسین اختررضوی

قرآن کریم میں ارشاد الہی ہوتا ہے : خدا کسی قوم کے حالات کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کر لے۔ انسان سے گھر بنتا ہے اور گھر سے ایک معاشرہ وجود میں آتا ہے. انسان کا کردار اس کی فکر پر منحصر ہوتاہے. انسان ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے . جب ایک شخص پیدا ہوتا ہے تو نہ وہ پیدائشی طور پر شریف ہوتا ہے اور نہ ہی مجرم بلکہ اس کے ایک اچھے انسان بننے اور مجرم بننے میں یہ معاشرہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچہ اگر ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہو جس جگہ کے افراد پڑھے لکھے، با شعور اور با اخلاق ہوں تو فطری طور پر وہ بچہ اچھے اخلاق کا مالک ہوگا. ایک اچھا انسان بنے گا لیکن اس کے برعکس اگر ایک بچہ ایسے معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے جس جگہ کے لوگ بے شعور، بد اخلاق اور ان پڑھ  ہوں تو یہ باتیں بچے پر منفی اثرات مرتب ضرور کریں گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اگر وہ معاشرہ مختلف طرح کی برائیوں میں مبتلا ہو تو یہ سب باتیں چھوٹی چھوٹی برائیوں سے برے کاموں کی طرف لے جاتی ہیں اور ایک اچھے بھلے انسان کو مجرم بنا دیتی ہیں. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پر سکون ہو اور ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو تو ہمیں سب سے پہلے اپنے نفس کو ٹھیک کرنا ہوگا اور دوسروں کے عیب تلاش کرنے کے بجائے خود اپنے آپ کو بےعیب کرنا ہوگا کیونکہ اچھا معاشرہ بہترین انسانوں سے ہی تشکیل پاتا ہے۔                                       

ہر قوم کی قوت اخلاق و کردار ہوا کرتی ہیں اور اس کی عظمت و سر بلندی کی تاریخ اسی سے رقم ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اخلاق پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: میں اخلاق کی تکمیل کے لئے خدا کی جانب سے دنیا میں بھیجا گیا ہوں مگر افسوس کہ مسلمان رفتہ رفتہ اپنی تہذیب وثقافت بھول گئے اور مذہب سے دوری کے ساتھ ساتھ بے راہ روی کا شکار ہوگئے اور اسلام کی دعوت و تربیت کو فراموش کرگئے۔ جس کی وجہ سے ان میں اخلاقی زوال، بے شرمی و بے حیائی ,جھوٹ و چغلخوری, فریب, غرور و تکبر سرایت کر گئے اور اس طرح دنیا کو تہذیب و تمدن کا درس دینے والی قوم خود غیر مہذب ہو کر رہ گئی۔ دوسری قوموں کو اپنے عمدہ اخلاق و کردار اور حسن سلوک سے زیر کرنے والی قوم آج خود ان اوصاف سے عاری ہو کر رہ گئی ہے۔ اسلام دینی احکامات کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار سازی، مساوات و بھائی چارگی، امانتداری و رواداری کا درس دیتا ہے۔ بد دیانتی اور رشوت خوری سے روکتا ہے تا کہ عزت و شرف کا تاج ان کے سر پر برقرار رہے۔ کسب حلال، صلہ رحمی، پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک اور حق گوئی کی تلقین کی گئی۔ دین کا جزء ہونے کی وجہ سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے پڑوسیوں کی حق تلفی کرنے والے کے ایمان کی نفی کی ہے۔

لہذا مسلمانوں کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیئے اور انہیں خود فیصلہ کرنا پڑے گا کہ نماز کی پابندی کے ساتھ لوگوں کے ساتھ بد سلوکی، حج بیت اللہ کی سعادت و ادائیگی کے ساتھ سود و رشوت, پڑوسیوں یا دیگر حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی، زبان پر تسبیح پروردگار سے زیادہ گالم گلوج اور غیبت؟  کیا یہ ایمان کی علامت ہے۔ اسلام میں غیبت سے منع کیا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا۔اس قدر سخت تاکید کے باوجود مسلمانوں میں یہ برائی کثرت سے پائی جاتی ہے۔ جھوٹ تو اس طرح بولتے ہیں جیسے ان سے کوئی باز پرس کرنے والا نہیں۔ جب کہ اسلام میں جھوٹ کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے۔ وعدہ خلافی مسلمانوں کے یہاں کوئی عیب نہیں جب کہ پیغمبر اسلام (ص)  نے وعدہ خلافی کو منافقوں کی پہچان میں سے ایک قرار دیا ہے۔ آج مسلم معاشرے میں متعدد اخلاقی کمزوریوں کے ساتھ بے شمار برائیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خیانت، بد دیانتی، بے راہ روی، اوہام پرستی اور کمزوروں پر ظلم و زیادتی جیسی برائیاں عام ہو گئی ہیں۔ مسلمانوں میں ایثار و قربانی، ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ معاشرے میں جھوٹ، دشنام طرازی، غیبت و بے حیائی اور سود خوری کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ جس کی وجہ سے قوم کی حالت تباہ اور عزت ذلت و رسوائی میں تبدیل ہو گئی۔ دین کا نام رہ گیا اور بے جا رسم و رواج نے لوگوں کو اپنی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج نئی نسل بے راہ روی اور تعلیم سے دور نشہ کی عادی اور تہذیب و تمدن سے عاری ہوگئی۔ یہی وہ برائیاں ہیں جس نے قوم کو سماجی، معاشرتی ، اقتصادی اعتبار سے انتہائی کمزور کردیا۔

 

 

 

 

ٹیگس