خیرخواہی جنت کی کنجی (حصہ اول)
تحریر : حسین اختررضوی
اسلام کی انسان ساز ثقافت میں خیرخواہی کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ خیرخواہی یعنی دوسروں کے لئے نیکی و بھلائی طلب کرنا جو دین اسلام کے اہم اصولوں میں شمار ہوتی ہے ۔ تمام انبیاء اور اولیاء علیہم السلام خیر خواہ تھے اور ان کی بھرپور کوشش یہی ہوتی تھی کہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کے بہترین راستے پر گامزن کریں، ان انوار طاہرین نے اس راہ میں کسی بھی قسم کی فروگذاشت سے کام نہیں لیا ۔ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جو منبع و منشاء خیر و نیکی تھے انسانوں کی عظمت و رفعت کو خیر خواہی میں مضمر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: قیامت کے دن خداوندعالم کے نزدیک سب سے عظیم انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ نیکی و بھلائی کرنے میں سب سے زيادہ آگے ہو۔ اسی وجہ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایران ، روم اور حبشہ کے سربراہان مملکت کے نام خط لکھا تو قاصدوں سے فرمایا: خداوند عالم کی خوشنودی کے لئے لوگوں کے ساتھ نیکی و بھلائی سے پیش آؤ کیونکہ اگر کوئی شخص عوام کے بعض امور کی ذمہ داریوں کو اپنے کندھے پر لے اور ان کے ساتھ نیک و اچھا برتاؤ نہ کرے تو خداوندعالم اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے ۔
انسان ہمیشہ خطاؤں اور لغزشوں میں گرفتار ہوتا رہتا ہے، لہذا ایسے افراد پر لازم ہے کہ جو کسی نہ کسی اعتبار سے ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں وہ الفت و محبت کے عنوان سے ایک دوسرے کے کردار و گفتار پر نظر رکھیں تاکہ اگر ان میں سے کسی کو خطا یا لغزش کا شکار ہوتے ہوئے دیکھیں تو نصیحت و خیرخواہی کے فریضہ پر عمل کرتے ہوئے انہیں ان کی غلطیوں کی جانب متوجہ کریں کیونکہ جن افراد میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی انجام دینے کی صلاحیت موجود ہو اور وہ اپنا فریضہ انجام دینے میں کوتاہی کریں تو وہ فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی اس حدیث کے مصداق ہوں گے جس میں آپ فرماتے ہیں: اگر کوئی شخص اپنے برادر مومن کو برے کام میں مشغول دیکھے اور اس کام سے منع کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اس کو منع نہ کرے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی ہے۔اسی طرح آپ ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں: اگر کسی عقلمند انسان سے اس کا مومن بھائی مشورہ کرے اور وہ اس کی نیکی اور بھلائی کی طرف رہنمائی نہ کرے تو خداوند عالم نے جو اسے عقل اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے اس سے چھین لے گا۔