امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر اسلام کی تاکید۔ 2
تحریر: نوید حیدر تقوی
اس تحریر میں بھی ہم اسلام میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت اور اس کی شرائط کےبارے میں اپنے گذشتہ عرائض کو جاری رکھیں گے۔
قرآن کریم تمام انبیاء کی پہلی ذمہ داری ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قرار دیتا ہے اور سورۂ نحل کی آیت 36 ميں ارشاد فرماتا ہے۔ " اور یقینا ہم نے ہرامت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو پھر ان میں بعض کو خدا نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوگئی۔" انبیاء علیھم السلام کی بعثت کی اہم ترین وجہ ، انفرادی و اجتماعی فسادات کا مقابلہ اور عدل وانصاف کا قیام تھا تاکہ معاشرے میں اصلاحات انجام پائیں اور عدل وانصاف کا قیام عمل میں آئے اور عام انسان کامیاب و رستگار قرار پائیں کیوں کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ انفرادی و اجتماعی فساد سے بھرے ہوئے معاشرے کا کسی اصلاحی اقدام کے بغیر تزکیہ ہو سکے۔
پیغمبراسلام (ص) اور ان کے اہل بیت علیھم السلام کی عملی سیرت ، اعلی ترین اخلاقی تعلیمات سے سرشارہے ۔ مثال کے طورپر تاریخ میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن حضرت علی (ع) کوفے کی گلیوں میں گذر رہے تھے کہ اچانک متوجہ ہوئے کہ کوئی ان کے پیچھے آرہا ہے امام (ع) کھڑے ہوگئے اور ایک جوان کو دیکھا تو آپ نے فرمایا اے جوان کیا تجھے کوئی کام ہے ؟ اس نے جواب میں کہا ہاں اے امیرالمومنین میں یہ چاہتاہوں کہ آپ مجھے ایک ایسی نصیحت فرمائیں جس کے سبب خدا میرے گناہوں کو بخش دے ۔ امام (ع) نے اس جوان کے جواب میں فرمایا " جو کوئی تین خصوصیات کا حامل ہو وہ دنیا اور آخرت دونوں جہاں میں محفوظ رہے گا اول یہ کہ امر بالمعروف کرے اور خود بھی اس پر عمل پیرا ہو ۔ دوم یہ کہ نہی عن المنکر کرے اور خود بھی اس منکراور برائی سے دور رہے ۔ اور سوم یہ کہ کسی بھی حالت میں گناہ میں آلودہ نہ ہو اور الہی حدود کی پابندی کرے ۔
اہل بیت اطہار علیھم السلام کی عملی سیرت میں اچھائیوں اور نیکیوں کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنے کا اصل مقصد ظلم و فساد کا مقابلہ کرنا ہے ۔ سماجی تبدیلیوں ميں ان بزرگوں کی شمولیت اس حد تک نمایاں ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت سےاصلاحی اقدامات اور تعمیری تغیرات ان کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پرتو میں عملی صورت اختیار کرتی ہیں ۔ چنانچہ امام حسین (ع) کا انقلاب ، سماجی و سیاسی تبدیلیوں میں خاندان رسول اکرم (ص) کے موثرکردار کی ایک نمایاں مثال ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبراسلام (ص) کی رحلت کے بعد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کماحقہ عمل نہیں کیا گيا اور لوگوں نے خوف یا لالچ میں اس سلسلے میں زبانی یا عملی اقدام نہيں کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں کوتاہی کی۔ نتیجے میں دین میں برائی کو رواج مل گيا اور یزید جیسا فاسق وفاجر تخت حکومت پر بیٹھ گيا ۔ امام حسین نے اپنے قیام اور تحریک کا مقصد اوراس کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے اس امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جانب اشارہ فرمایا اور اسے اپنے قیام کے اہداف میں سے قراردیا ۔ آنحضرت ایک بیان میں حکومت بنی امیہ کو ایسا منکر متعارف کراتے ہیں کہ جس کے خلاف جدوجہد کرنی چاہئے ۔ امام (ع) یزید کو شرابخوار ، اور فاسق و فاجر ، اور اس کے پیروکاروں کو شیطان کا مرید ، اور حکومت اموی کو ، حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرنے والی متعارف کراتے ہیں اور کیوں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا زبانی اثر حالات کو تبدیل کرنے میں بے اثر ہوچکا تھا اس لئے امام حسین (ع) نے ظالم وجابر اور فاسد حاکم یزید کو ، منکرات اور برائیوں سے روکنے کےلئے اٹھ کھڑے ہونے کو اپنا اہم ترین فریضہ جانا اور اسی دینی اصول کی بنیاد پر امام (ع) نے بیعت یزیدکو ٹھوکرمار دی اور اسے باعث ننگ و عار قرار دیا اور کربلا جیسی جاوداں تاریخ رقم کردی۔