پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کا استعفیٰ امریکی سازش کا نتیجہ
تحریر: م۔ ہاشم
ایک اطالوی عیسائي مذہبی پیشوا نے انکشاف کیا ہے کہ پاپائے روم پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کا استعفیٰ سابق امریکی صدر باراک اباما کی سازش کا نتیجہ تھا۔
ارنا کے حوالے سے تہران سے شائع ہونے والے فارسی اخبار ”جام جم“ کی ایک اہم رپورٹ کے مطابق اطالوی اسقف ’لوئيجی نگری‘ نے کیتھولک عیسائيوں کے سابق مذہبی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کو مستعفی ہوئے چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد استعفیٰ دینے کے لئے اوباما حکومت کی طرف سے پوپ بینیڈکٹ شانزدہم پر پڑنے والے دباؤ اور سازش سے پردہ اٹھایا ہے۔
اٹلی کے شمالی شہر ’فیرارا‘ کے سابق اسقف لوئيجی نگری نے ایک آن لائن اخبار ”ریمینی“ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک بین الاقوامی سازش کی طرف اشارہ کیا جو ٢٠١٣ع میں سابق پاپائے روم کے استعفے پر منتج ہوئي اور جس میں سابق امریکی صدر باراک اوباما شریک تھے۔ رپورٹ کے مطابق سابق پاپائے روم پوپ بینیڈکٹ شانزدہم پر اتنا زیادہ دباؤ تھا کہ اس کے خلاف مزاحمت ممکن نہیں تھی۔
فیرارا شہر کے سابق اسقف نے مزید کہا کہ ”مجھے یقین ہے کہ ویٹیکن کے اندر اور اس کے باہر جو کچھ ہوا ہے اس سے ایک دن پردہ اٹھ کر رہے گا اور یہ کہ بینیڈکٹ شانزدہم بڑے بھاری دباؤ میں تھے۔“ ان کا کہنا تھا کہ یہ کوئي اتفاقی بات نہیں ہے کہ امریکہ کی بعض کیتھولک تنظیموں نے ٹرمپ سے پوپ بینیڈکٹ شانزدہم پر اوباما حکومت کے دباؤ کے بارے میں ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے اور یہ کہ یہ ایک سنگين راز ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ بالآخر اس سازش میں ملوث افراد کے چہرے سے نقاب اٹھے گا۔
قابل ذکر ہے کہ فروری ٢٠١٣ع میں، جب پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تھا، اسی وقت اٹلی کے ذرائع ابلاغ میں پوپ کے استعفے کے لئے ویٹیکن میں مختلف لابیوں، خفیہ رپورٹوں اور سازش کے بارے میں افواہوں کی خبریں آئي تھیں۔ البتہ پوپ بینیڈکٹ شانزدہم اپنی ایک کتاب میں استعفے کے لئے دباؤ کے الزامات کی تردید کرچکے ہیں۔