امریکہ کی نئی مہم جوئی
تحریر : ڈاکٹر آر نقوی
امریکی سینیٹ کے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن ارکان کے ایک گروپ نے ایران کے بیلسٹک میزائل تجربے اور دیگر غیر ایٹمی سرگرمیوں کی وجه سے پابندیوں کو مزید سخت کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ باب کروکر، رابرٹ میننڈز، مارکو روبیو، بین کارڈن اور ٹام کپاس امریکہ کے وہ سینیٹرز ہیں جنہوں نے ایران مخالف پابندیوں کا ایک نیا مسودہ تیار کیا ہے۔ نیو جرسی کے ڈیموکریٹ سینیٹر میننڈز کے مطابق یه منصوبہ ایسا تیار کیا گیا ہے جو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ ایران مخالف اس مسودے کے تحت جو23 مارچ کو متعارف کرایا گیا، ہر اس شخص یا ادارے کے تمام اثاثے منجمد کئے جائیں گے جو ایران کے ساتھ اقوام متحدہ کی قرارداد مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
امریکہ کا نیا سناریو صدر ٹرمپ کی حکومت کے آغاز میں امریکہ کی نئی مہم جوئی ہے۔ تجزیہ نگار یہ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے رویوں کو پرکھ رہے ہیں۔ یہ مفروضہ گرچہ تجزیہ میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن کسی جامع تجزیہ کی بنیاد نہیں بن سکتا ہے کیونکہ امریکہ کے نئے سناریو کی بنیادی وجہ بش کے دوران سے آج تک امریکہ کی پالیسیوں میں آنے والے نشیب و فراز ہیں اور امریکہ کی ماضی کی پالیسیاں ہیں۔ اسی بنا پر ایسا لگتا ہے کہ وائٹ ہاوس پہنچنے والے نئے حکام کے لئے ضروری ہے کہ ماضی پر بھی نگاہ رکھیں۔ باراک اوباما نے بارہا یہ جملہ استعمال کیا تھا کہ ایران کے خلاف تمام آپشن میز پر ہیں۔ لیکن باراک اوباما کی آٹھ سالہ صدارت کے عرصے میں یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ امریکہ کے لئے حالات بہت زیادہ بدل چکے ہیں، کسی بھی ملک کے خلاف دھمکیاں محض ناپختگی اور کم معلومات کی نشانی ہے۔ ایک سال قبل امریکہ کے سابق وزیر خارجہ کولن پاول نے ایک انٹرویو ایران پر حملے کی باتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا اچھا ہوگا اگر حقیقت پسندی سے کام لیا جائے اور ایران کا یمن اور کسی اور ملک سے مقابلہ نہ کیا جائے انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ حتی ہم لوگوں نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا ہے۔
آج شاید سعودی عرب جیسی بعض پٹھوحکومتیں یہ تصورکرتی ہیں کہ وہ اپنے نقش برآب ہونے والے منصوبے کو ٹرمپ کے نئے کھیلوں سے حاصل کرسکتی ہیں لیکن یہ محض ایک خیال ہے کیونکہ امریکہ اس سے قبل تمام آپشنوں کو پراکسی وار میں ایران کے خلاف بالواسطہ طریقے سے یا براہ راست طریقے سے اپنا کر دیکھ چکااور پہلے سے ہی ان کے نتیجے سے واقف ہوچکا ہے۔ آج علاقے کے باہر کے جن دھڑوں نے عراق و افغانستان میں تبدیلیوں کے وعدوں پر بھروسہ کرکے مہم جوئی کا آغاز کیا ہے انہیں اب نہایت شدید جیلنج درپیش ہیں اور بنیادی طور سے وہ ایسے حالات میں نہیں ہیں کہ علاقے میں نئی مہم جوائی شروع کرسکیں۔ امریکہ کی نئی حکومت کے دھمکی آمیز بیانات سے امریکہ کے داخلی اختلافات کا پتہ چلتا ہے، ری پبلیکن ان رویوں سے امریکہ کے اندر اپنی متزلزل پوزیشن کو دوبارہ بحال کرنا چاہتے ہیں اور اپنے منتازعہ فیصلوں سے رائے عامہ کی توجہ صدرات کے آغاز میں ٹرمپ کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات سے ہٹانا چاہتے ہیں۔