Apr ۰۱, ۲۰۱۹ ۰۱:۰۰ Asia/Tehran
  • بارہ فرودین مطابق یکم اپریل ایران کا یوم اسلامی جمہوریہ   (دوسرا حصہ)

تحریر: نوید حیدر تقوی

ملت ایران کے دشمنوں نے ابتداء ہی سے اسلامی انقلاب کو خطرناک ظاہر کرنے کے ساتھ ، کوشش کی کہ دنیا کی دیگر قوموں کے لئے ملت ایران کی انقلابی تحریک کو مثالی نمونہ بنائے جانے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔

 اس لحاظ سے عوام نے اپنے براہ راست ووٹوں کے ذریعے، ایران کے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ملت ایران تسلط پسند نظام کے خلاف متحدہ ہے اور ریفرنڈم کے نتائج سے بلا خوف و خطر ہوکر، عوام کی حقیقی شراکت کہ جو اسلامی انقلاب کا اصلی محور ہے، اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

 اس رو سے بارہ فروردین کا دن، ایران میں عوامی جمہوری حاکمیت کے ارتقاء کے حساس مرحلے کا نقطہ آغاز شمار ہوتا ہے۔

 کیونکہ اس دن نے ثابت کردیا کہ اسلامی و انقلابی اعلی اقدار پر مبنی اپنی سرنوشت کے تعیّن کے لئے، ایران کے عوام کا سیاسی شعور بہت بلند ہے۔  ایران کے عوام نے اپنی انقلابی جدوجہد کی پوری تاریخ میں، استقلال، آزادی، جمہوری اسلامی کے نعروں کو سرفہرست قرار دے رکھا تھا، اگر چہ ایران کے عوام نے اسلامی جمہوریہ کے لئے اپنی ٹھوس رائے کو پہلے ہی سے اعلان کر دیا تھا لیکن اسلامی انقلاب کے کارناموں پر مہر تثبیت ثبت کرنے کے لئے، عوام نے اس ریفرنڈم میں بھرپور طریقے سے شرکت کی اوراسلامی انقلاب کے ایک بڑے ہدف کے عنوان سے  اس ریفرنڈم کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور انقلاب کی آخری کامیابی کو اپنی متحدہ رائے کے ذریعے عملی جامہ پہنایا اور اسی لئے  یہ دن یوم " اسلامی جمہوریہ " قرار پایا۔

اسلامی انقلاب کے خلاف سامراجی طاقتوں کی سازشیں، کبھی ختم نہیں ہوئیں، اور تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران، ملت ایران کے قسم خوردہ  دشمنوں کی جانب سے دشمنانہ سرگرمیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دشمنوں نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، ایران کے اسلامی انقلاب کے مخالفین ایم کے او یعنی ( منافقین) کی حمایت کے لئے خصوصی فنڈ منظور کیا اور داخلی حالات کشیدہ کرنے کے لئے، میڈیا کے نت نئے حربوں کو اپنے ایجنڈے میں شامل کیا۔

اسلامی جمہوری نظام کے دشمنوں نے گزشتہ 38 برسوں کے دوران مختلف سازشوں منجملہ مسلط کردہ جنگ، سیاسی شخصیات و ایٹمی سائنسدانوں کے قتل، اقتصادی پابندی اور پرامن جوہری ٹیکنالوجی کے حصول میں ایران کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ذریعے، ملت ایران کی خود مختاری کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔

 لیکن ان تمام برسوں میں ہونے والے انتخابات میں ایران کے عوام کی عظیم الشان شرکت نے، اسلامی جمہوری نظام میں ڈیموکریسی کی بنیاد کے عنوان سے، ایران کے خلاف مغرب کے مختلف منصوبوں کو خاک میں ملاتے ہوئے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ دشمن، ایران کی سیاسی و سماجی فضا کو مکدر کرتے ہوئے، اسلامی جمہوری نظام اور انقلاب کے ڈھانچے کو نقصان پہنچانے کی جرآت کرسکے۔

اس لحاظ سے ایران کے اسلامی انقلاب کی تاریخ کا یہ دور، خاص اہمیت کا حامل ہے۔  ایران کی تاریخ کے اس حصے کے اہم واقعات میں اسلامی جمہوریہ کے نظام کی تشکیل کے ریفرنڈم کا انعقاد شامل ہے۔

 یہ ریفرنڈم ایران کے عوامی جمہوری حاکمیت پر مبنی نظام کے فروغ پانے اور اس کے متحرک رہنے اور ملت ایران کی سامراج مخالف جدوجہد میں اہم کردار رکھتا ہے۔

 ملت ایران، ان تمام برسوں میں اپنے نصب العین کے تحفظ میں ڈٹے رہی ہے اور اس نے اسلامی جمہوری نظام کو تسلط پسند طاقتوں کے مقابلے میں پائیدار رہنے کے لئے، دیگر قوموں کے لئے مثالی نمونے میں تبدیل کردیا ہے۔

12 فروردین مطابق یکم اپریل کا دن درحقیقت، اسلامی جمہوری نظام کے عوامی ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔

اسلامی جمہوری نظام کےحق میں ملت ایران کی بھر پور  رائے، روشن و واصح عالمی پیغام کی حامل تھی، اس میں سب سے اہم ترین پیغام حاکیمت میں اسلامی اقدار پر بھروسہ ہے تاکہ اسلامی انقلاب کے نصب العین اور ملت ایران کے قانونی مطالبات کا دفاع کریں۔

 اسلامی جمہوری نظام درحقیقت، عوام پر عوام کی حاکمیت کی بنیاد پر استوار ہے کہ جو نظام کی تشکیل اور اس کے تسلسل میں عوام کے کردار ادا کرنے کے معنی میں ہے، اس رو سے 12 فروردین 1358 ہجری شمسی مطابق یکم اپریل 1979 کو یقینی طور پر، 22 بہمن 1357 ہجری شمسی میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایران میں ایک عظیم دن سمجھا جائے، کیونکہ اس دن نے دنیا کے ديگر انقلابات کے مقابلے میں اسلامی انقلاب کے فرق کو آشکار کردیا ہے۔

اس ریفرنڈم کی ایک اہم ترین خصوصیت، نظام کی خومختاری کی بنیادوں کی تقویت کے راستے میں سیاسی معاشرے کے تحرّک کا تسلسل ہے۔

 ہر معاشرے میں عوام کی سیاسی شراکت، بین الاقوامی پیغاموں کی حامل ہوتی ہے اور ان پیغاموں میں سے ایک اہم ترین،  پورے نظام میں عوام کی سیاسی، سماجی وحدت کی عکاسی کا پیغام  ہے کہ جو ایک ملت کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اہم عامل شمار ہوتا ہے۔

ایران میں اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل نے ملت ایران کی سرنوشت کو خود مختاری اور عوامی حاکمیت کے راستے پر گامزن کرنے کے علاوہ، علاقائی اور عالمی سطح پر گہرے اور پائیدار اثرات خاصطور سے مشرق وسطی میں مرتّب کیئے ہیں اور ان اثرات کا علاقے میں اسلامی بیداری کی تحریکوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ جمہوری نظام کی تشکیل کے ساتھ، آخرکار صدیوں بعد، دین کی سیاست سے جدائی کا نظریہ غلط ثابت ہوا اور دینی تعلمیات کی بنیاد پر اسلامی حاکمیت، اپنی عظیم خوبصورتی کے ساتھ جلوہ فگن ہوئی۔

 اس طرح، سیاسی و سماجی نظریہ کے حوالے سے؛  12 فروردین کا ریفرنڈم اور اس کے بعد ایران میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو نظام کے ارتقائي مراحل کا نقطہ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے، کہ جس نے منجملہ مختلف سیاسی،  ثقافتی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں ملت ایران کی طاقت میں اضافہ کے لئے زمین ہموار کی۔

 ملت ایران نے جس طرح  12 فروردین کو ہونے والے ریفرنڈم میں اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا، اس کے بعد بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں اپنے عزم و ارادے کو پائے اثبات تک پہنچایا اور سامراج کے ساتھ جدوجہد کے حقیقی مفہوم اور حریت پسندی کی حقیقی ماہیت کو نمایاں کیا ہے۔       

بارہ فرودین مطابق یکم اپریل ایران کا یوم اسلامی جمہوریہ (پہلا حصہ)

 

ٹیگس