Apr ۲۲, ۲۰۱۷ ۲۳:۰۴ Asia/Tehran
  • حق و باطل کی شناخت حاصل کرو

تحریر : حسین اختر رضوی

 لڑائی ، جھگڑا ، فتنہ و فساد کے زمانے میں بہت سے لوگ کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے ذہن میں سب سے پہلا سوال جو اٹھتا ہے وہ یہ کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ؟ یہ سوال صرف ہمارے ہی زمانے سے مخصوص نہیں ہے بلکہ گذشتہ زمانے میں بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں لوگ بہت ہی کم شبہہ کا شکار ہوتے تھے اور حق و باطل کو آسانی کے ساتھ پہچان لیتے تھے لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد منافقوں کے کھل کر سامنے آجانے سے بہت سے لوگ شبہات کا شکار ہوگئے چونکہ باطل نے حق کا لباس پہن لیا تھا اور بہت سے لوگوں کے پاس اپنی کوئی تحلیل و پہچان کا معیار نہیں تھا اور اسلام کو اشخاص کے ذریعے سے پہچانتے تھے۔

جنگ جمل میں ایک شخص نے کہ جو امیر المؤمنین علیہ السلام کا طرفدار تھا مگر اس نے طلحہ و زبیر اور حضرت عائشہ کو مخالف گروہ میں دیکھا چونکہ یہ جانتا تھا کہ یہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یار و خاندان کے لوگ ہیں لہذا یہ سمجھنے لگا کہ ان لوگوں کا مطالبہ حق ہے اور ان کا اعتراض صحیح ہے یہ وہ موقع تھا جب وہ اپنی دلی کیفیت پر قابو نہ رکھ سکا اور امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے بیان کر ڈالی امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا: حق و باطل لوگوں اور رشتہ داروں سے نہیں پہچانے جاتے بلکہ حق کو حق کی پیروی کرنے والوں سے پہچانو اور باطل کو اس کے پرہیز کرنے والوں سے۔

نہج البلاغہ حکمت دوسو باسٹھ نمبر میں آیا ہے کہ تم نے حق کو پہچانا ہی نہیں ہے تاکہ اس کے اہل کو پہچان سکو اور نہ باطل کو پہچانا ہے تاکہ  باطل پرستوں کو پہچان سکو ۔ اہل باطل کی تمام تر کوششیں یہی ہیں کہ حق کو باطل سے اس طرح ملادیا جائے کہ کوئی بھی شخص حق کو پہچان ہی نہ سکے لہذا معاشرے میں موجود با اثر افراد کے اندر یہ صلاحیت پائی جانی چاہیئے کہ وہ حق و باطل کے درمیان امتیاز پیدا کرسکیں۔

خود قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً اس حکم کے مطابق باطل ختم ہونے والا ہے باطل کا انجام نابودی ہے چاہے وہ حق کے لباس میں ظاہر ہو یا حق کو باطل میں ملاوٹ کرنے کے بعد، حق جیسے ہی ظاہر ہوتا ہے باطل اپنا کھوٹا سکہ خود بخود ظاہر کردیتا کہ ہم باطل ہیں ۔ باطل کی مثال اس سایہ کی طرح ہے جو سورج کے غائب ہونے پر تو لوگوں کو گمراہ کرسکتا ہے لیکن سورج کے نکلنے سے اس کے وجود تک کسی کو بھی گمراہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ ہر ایک کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اصلی کون ہے اور سایہ کس کا ہے ۔ حق و باطل کو افراد و اشخاص سے نہ پہچانو بلکہ پہلے حق کو پہچان لو پھر حق کے پیرو کار خود بخود سمجھ میں آجائیں گے ۔اسی لئے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے: " اعرف الحق تعرف اہلہ" حق کو پہچانو اہل حق اور صاحب حق خود بخود پہچان لئے جائیں گے ۔

ٹیگس