معرفت امام ، خدا کی معرفت کا ذریعہ
تحریر : حسین اختر رضوی
روایات کے مطابق معرفت پروردگار کا حصول اولیائے خدا اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی معرفت کے ذریعے سے ممکن ہے چونکہ یہ ہستیاں اسماء و صفات الہی اور پروردگار کے جمال و جلال کی مظہر ، معصوم اور انسان کامل ہیں کہ جن کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ اور نمائندہ قرار دیا ہے۔ اس کا ارادہ ہے کہ وہ ان ہستیوں کے ذریعے سے پہچانا جائے، ان کے ذریعے سے اس کی اطاعت ہو اور ثواب و عذاب کا معیار بھی ان پر ایمان اور ان کی اطاعت کے مطابق ہو۔
انسان کی سب سے پہلی اور اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرے کیونکہ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ ہوگی ،بندگی اور اطاعت کا صحیح راستہ انسان کے لئے نہیں کھلتا اس وجہ سے قرآن کریم اور روایتوں میں معرفت خدا کے ضروری ہونے پر بہت سے مطالب بیان ہوئے ہیں۔ بعض قرآنی آیات میں خدا کی حمد و ثناء اور اس کی مختلف صفتوں کا ذکر ہوا ہے اس طرح ائمہ معصومین علیہم السلام نے روایات، دعاؤں اور خطبات میں وسیع پیمانے پر خدا کی حمدو ثناء اور اس کی صفات کو بیان کیا ہے۔
جب فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام سے کسی نے معرفت خدا اور اس کے طریقہ حصول کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: " معرفت اھل کل زمان امامھم الذی یجب علیھم طاعته "یعنی معرفت خدا سے مراد ہر زمانے کے لوگوں کا اپنے امام کی معرفت کو حاصل کرنا ہے، وہ امام کہ جس کی اطاعت ان پر واجب ہے ۔"
واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کی پہچان خدا کی معرفت کا ذریعہ ہے اور انسان امام کی معرفت حاصل کرکے اور اس کے فرامين و احکام پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے صحیح اور سیدھے راستے پر قدم رکھ سکتا ہے اور وہ سعادت جو خداوندعالم نے اس کے لئے محفوظ رکھی ہے اس تک پہنچ سکتا ہے۔ معرفت خدا کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اس شخص کی پہچان نہ ہو جو اس کی طرف سے بندوں کے لئے راہنمائی اور رہبری کے مقام پر فائز ہے۔
اہل تشیع کے عظیم محدث و فقیہ شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اس سے مراد یہ ہے کہ ہر زمانے کے لوگ یہ جان لیں کہ خداوند عالم وہ ہستی ہے کہ جس نے انہیں کسی زمانے میں بھی امام معصوم کے بغیر نہیں چھوڑا ہے لہذا جو شخص بھی اس خدا کی عبادت کرے کہ جس نے ان پر کوئی حجت قرار نہ دی ہو تو گویا اس نے غیر خدا کی عبادت کی ہے۔