عالمی جنگ کا اشارہ
ترتیب و تلخیص: آر. اے. نقوی
عالمی سامراجی یا شیطانی قوتیں جب دنیا میں کہیں بھی جگہ دیکھتی ہیں کہ مذہبی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے یا تو اس کے موجب کو ختم کر دیا جاتا ہے یا اسکا رخ موڑ دیا جاتا ہے نتیجتاً لوگ اپنے اہداف سے گمراہ ہو جاتے ہیں ۔
ایک بات جو بالکل عیاں ہے ،وہ یہ کہ ایک خدا پر ایمان لانے والے حضرت محمد کو خدا کا آخری نبی ماننے والے اس وقت شدید اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں، جسکا مکمل فائدہ یہود و نصاری ٰاٹھا رہے ہیںآج ان اختلافات کی وجہ سے کچھ تجزیہ نگار عالمی جنگ کا اشارہ بھی دے رہے ہیںجبکہ اسکا مرکز جزیرہ نمائے عرب قرار دیا جارہا ہے یہ ایک قابل غور اور سنجیدہ بات ہے۔ اس پر غور ہونا چاہیے، اور ایسے اقدامات تجویز کرنے چاہیے کے یہ خطرہ ٹل جائے اور دنیاپھر سے محبت کا گہوارہ بن جائے۔
جب ہم جز یرة العرب پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عرب و عجم کے جغرافیہ نویسوںنے جزیرہ نمائے عرب کو کبھی موسم (آب و ہوا) کے لحاظ سے اور کبھی قوم یا نسل کی بنیاد پر تقسیم کیا بعض ہم عصر دانشوروں نے جزیرہ نمائے عرب کی تقسیم اس طرح کی ہے۔
۱۔مرکزی حصہ جس کا نام صحرائے عرب ۔
۲۔شمالی حصہ جس کا نام حجاز ۔
۳۔جنوبی حصہ جویمن کے نام سے مشہور ہے۔
جبکہ ایک مسلمان دانشور کہتا ہے عرب چار بڑے علاقوں حجاز ،یمن ،عمان اور ہجر پر مشتمل ہے، آج ہم صرف جنوبی جزیرہ نمائے عرب (یمن) پر بات کرتے ہیں کیونکہ لگتا یہ ہے کہ اگر عالمی جنگ ظہور پذیر ہوئی تو اس علاقے کے موجودہ حالات بھی ایک وجہ بن سکتے ہیں۔جن علاقوں کو یمن کا نام دیا گیا ہے ان علاقوں میں بارش مسلسل ہوتی ہے اور پانی کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے کاشتکاری اچھی ہوتی ہے جس کے سبب یہاں پر آبادی زیادہ ہے۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اور بحثوںکے مطابق یمن میں بسنے والوں میں عظیم تمدن پایا جاتا تھا، یمن کے قدیمی تمدن کا مظہر عارب کا سب سے بڑا بند تھا یمن کے لوگ کاشتکاری کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کرتے تھے زمانہ قدیم میں ہندوستان کے لوگ اپنے تجارتی مال کو سمندر کے زریعے یمن لے جاتے تھے اور یمن کے تاجر اس مال کو حبشہ ، مصر ، فلسطین ، اور مدینہ کے شہر، ادوم، عمالقہ اورمغربی ممالک میں فروخت کرتے تھے جبکہ اہلِ مکہ اپنا تجارتی مال خشکی کے راستہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بیچتے تھے یعنی المختصر یہ کہ ایک زمانہ تک مشرق وسطیٰ کی تجارت یمنیوں کے ہاتھ میں تھی۔
زمانہ آہستہ آہستہ بدلتا گیا اور اب یکدم تبدیلی آئی ہے اس وقت شام،عراق، بحرین، اور یمن دہشت گردی کا شکار ممالک ہیں جب کہ ان پر کنٹرول کرنے کے لئے سعودی عرب اور اس کے اتحادی پوری کوشش کررہے ہیں جب کہ ایران اور اس کے اتحادی سعودی حکمت عملی کے درمیان دیوار بنے ہوئے ہیں لیکن ان دونوں میں ایک فرق جو واضح نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی امریکہ، برطانیہ، قطر، یو اے ای اور اسرائیل وغیرہ کا ہدف مذکورہ بالا ممالک پراپنا تسلط قائم کرنا ہے اور انہیں اپنی مرضی کے نظریات کی ترویج واشاعت کرنا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایران اور اس کے اتحادی اس قسم کی کوئی پلاننگ نہیں کررہے البتہ یہاں ایک پہلو دلچسپ ہے کہ امریکی سعودی گٹھ جوڑ کے نتیجہ میں روس اور ایران کے تعلقات بہتر ہوئے ہیں جبکہ ہم نے ماضی میں دیکھا کہ ایرانی قوم ہمیشہ روس کو اپنے ہدف تنقید پر رکھتی تھی اسی طرح اس وقت چین کا کردار جس میں زیادہ قربت روس کے ساتھ نظر آرہی ہے یہ بھی امریکی اور ان کے اتحادیوں کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے، اسی طرح ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمام ممالک کے درمیان روابط میں واضح ردوبدل ہورہا ہے کل کے حلیف آج حریف اور کل کے حریف آج حلیف بن رہے ہیں اس ساری صورتحال کا موجب جزیرہ نمائے عرب میں رونما ہونے والے واقعات ہیں ۔