غفلت، شیطان کی کمین گاہ ( حصہ دوم)
تحریر: حسین اختر رضوی
غفلت کی وجہ سے انسان سنگدل ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا دل ایسا مردہ ہوجاتا ہے کہ پھر اس پر کسی وعظ و نصیحت کا اثر نہیں ہوتا ۔ایسے شخص کے لئے بازگشت اور توبہ کا راستہ بھی بند ہوجاتا ہے اور کامرانی و سعادت کے لئے ہرقسم کی امید ختم ہوجاتی ہے ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: جو غفلت کا شکار ہوجاتا ہے اس کا دل مردہ ہوجاتا ہے، آپ نے ایک اور مقام پر فرمایا ہے کہ تمہارے اور وعظ و نصیحت کے درمیان غفلت و تکبر کا پردہ حائل ہے۔ نیز فرمایا ہے کہ دائمی غفلت و بے خبری انسان کو بصیرت سے محروم کردیتی ہے۔
غفلت انسان کے اعمال کے برباد ہونے کا سبب بنتی ہے، غافل اور بے خبر افراد نیک اورصالح اعمال بہت کم انجام دیتے ہیں اوراگـر انجام بھی دیتے ہیں تو غفلت انھیں خلوص نیت ، حضور قلب اور تمام شرائط کی رعایت کے ساتھ صرف خدا کے لئے اعمال انجام دینے کی اجازت نہیں دیتی ۔ اس لئے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں موقع اور فرصت کے وقت غفلت وتکبر سے پرہیز کریں اس لئے کہ غفلت انسان کے اعمال کوتباہ برباد کردیتی ہے ، غفلت گناہ کا سبب اورگناہ نیک اور اعمال صالحہ کے تباہ و برباد ہونے کا سبب بنتاہے۔ جس نے غفلت کیا وہ نقصان اٹھانے والا ہے ، امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ایک اور گرانقدر خطبے میں ارشاد فرماتے ہیں : غفلت دھوکہ کھانے کا موجب بنتی ہے اور ہلاکت سے نزدیک کردیتی ہے ۔
خداوند عالم سے غفلت کے نتیجے میں انسان دنیا پرست بن جاتاہے جو لوگ خدا وند عالم اور دنیا میں اس کی نشانیوں سے غافل ہیں اور دنیا کو ہی اصل سجھتے ہیں وہ قیامت اور حساب وکتاب پر توجہ نہیں دیتے اور دنیوی امور میں گرفتار ہوجاتے ہیں ، ان لوگوں کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دنیا سے اچھی طرح فائدہ اٹھائیں ،یہ لوگ دوسروں پر ظلم وستم اور دوسروں کے حقوق پامال کرنے کو ایک معمولی اور فطری کام سمجھتے ہیں ۔خداوند عالم دنیا کی طرف رجحان اور انتہا پسندی کو غفلت کا ایک عامل قرار دیتا ہے اور اس بارے میں فرماتا ہے: جو لوگ ہماری ملاقات کی امید ، روز قیامت پر یقین اور ایمان نہیں رکھتے اور زندگانی دنیا پر ہی راضی اور مطمئن ہوگئے ہیں یہ لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں ۔
فرزند رسول حضرت امام حسن علیہ السلام بھی اس بارے میں فرماتے ہیں: مؤمن لہو و لعب اور بیہودہ کام انجام نہیں دیتا مگریہ کہ غافل ہوجائے۔ لمبی اور طولانی آرزوئیں بھی غفلت کا ہی نتیجہ ہیں کیونکہ لمبی اور طولانی تمنائیں انسان کی تمام فکروں کو اپنی طرف مشغول اور دوسرے کاموں کی جانب سے غافل کرتی ہیں ۔ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں : آگاہ ہوجاؤ کہ آرزو دل کو غفلت و فراموشی کی طرف لے جاتی ہے ، وعدوں کو جھوٹ ظاہر کرتی ہے اور غفلت میں اضافے کا باعث بنتی ہے ، آپ غفلت کو انسان کی بدبختی کا سبب قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں: مال و دولت اور قدرت و مقام کے نشے سے پرہیز کرو، خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ اور عجلت پسندی سے کام نہ لو۔