اسلام میں تفریح کی اہمیت
تحریر: حسین اختر رضوی
اسلام کامل و مکمل شریعت اور اعتدال پسند مذہب ہے، ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی خشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو بروئے کار لانے والا مذہب ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت“ کی گنجائش ہے، نہ ہی بے ہنگم زندگی بسر کرنے کی اجازت ہے۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے مقاصد میں داخل ہے۔ سورہ بقرہ کی ایک سو پچاسیویں آیت میں ارشادِ قدرت ہوتا ہے: یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْر․
خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا۔
اسلام آخرت کی کامیابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائد، عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اقوامِ یورپ کی طرح پوری زندگی کو کھیل کود بنادینا اور ”زندگی برائے کھیل“ کا نظریہ اسلام کے نقطہ نظر سے درست نہیں ہے بلکہ اسلامی آداب کی رعایت ، اخلاقی حدود میں رہ کر کھیل کود، زندہ دلی، خوش مزاجی اور تفریح کی نہ صرف یہ کہ اجازت دی ہے بلکہ بعض اوقات کچھ مفید کھیلوں کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے۔
شریعت کی تعلیمات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مسلمان شریعت کے تمام احکام پر خوشی خوشی عمل کرے۔ یہ عمل انقباض اور تنگ دلی کے ساتھ نہ ہو؛ کیونکہ سستی اور تنگدلی کے ساتھ عبادات کو انجام دینا نفاق کی علامت ہے۔ سورہ نساء کی ایک سو بیالیسیوں آیت میں ارشاد ربانی ہوتا ہے: وَاِذَا قَامُوْا الٰی الصَّلوٰةِ قَامُوْا کُسَالیٰ․ اور یہ نماز کے لئے اٹھتے بھی ہیں تو سستی کے ساتھ، لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کرتے ہیں اور اللہ کو بہت کم یاد کرتے ہیں۔
سستی اور کاہلی اتنی ناپسندیدہ چیز ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے ان امور سے پناہ مانگی ہے۔ اسلام کی اعتدال پسندی ہی کا یہ اثر ہے کہ حضرت رسول خدا اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف وخشیت الہی اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں؛ وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔ ان امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے تفریح اور اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ پیش کررہے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شریعت میں تفریح اور مزاح جائزہے؟ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: دلوں کو وقتاً فوقتاً خوش کرتے رہا کرو کیونکہ دل اسی طرح اکتانے لگتا ہے، جیسے بدن تھک جاتے ہیں لہٰذا اس کی تفریح کے لئے حکیمانہ طریقے تلاش کیا کرو۔
فرح یعنی محبوب چیز کے پالینے سے جو لذت حاصل ہوتی ہے اسے فرحت اور خوشی کہتے ہیں۔ اگر یہ فرحت محض قلبی خوشی ہو اور اللہ کی نعمتوں کے احساس اور اس کے فضل وکرم کے استحضار پر مبنی ہو؛ تو وہ شریعت کی نظر میں مطلوب،مستحسن اور پسندیدہ ہے۔خداوندعالم سورہ یونس کی اٹھانویں آیت میں فرماتا ہے: پیغمبر کہہ دیجئے کہ یہ قرآن فضل و رحمتِ خدا کا نتیجہ ہے لہٰذا انہیں اس پر خوش ہونا چاہئے کہ یہ ان کے جمع کئے ہوئے اموال سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ یہ قلبی خوشی اگر ا نسان کو غرور و تکبر پر آمادہ کردے تواس طرح کی فرحت شرعی نقطئہ نظر سے ممنوع ہے۔ سورہ قصص کی چھہترویں آیت میں ارشاد احدیت ہوتا ہے: اس قدر نہ اتراؤ کہ خدا اترانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ اسی طرح سورہ ھود کی دسویں آیت میں خلاق کائنات فرماتا ہے: اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد نعمت اور آرام کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو کہتا ہے کہ اب تو ہماری ساری برائیاں چلی گئیں اور وہ خوش ہو کر اکڑنے لگتا ہے۔
مزاح اور زندہ دلی و خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک نقص ہے۔ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتی ہے۔ بسا اوقات اور ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لئے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرمایاکرتے تھے۔