یورپی دہشت گردوں کی واپسی سے جرمنی پریشان
ترجمہ و تلخیص: م۔ ہاشم
جرمنی کی ایک خفیہ ایجنسی نے اپنی نئي رپورٹ میں جرمنی میں سلفیوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہونے کی خبر دیتے ہوئے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں سلفیوں کی تعداد بڑھ کر 10300 ہوگئي ہے جبکہ جرمنی کی خفیہ ایجنسیوں نے سنہ 2011ع میں ان کی تعداد 3800 بتائي تھی۔ ان خفیہ ایجنسیوں کے مطابق سنہ 2015ع کے اواخر میں جرمنی میں سلفیوں کی تعداد بڑھ کر 8300 ہوگئي تھی اور جون 2017ع میں یہ تعداد 10 ہزار سے بھی تجاوز کر گئي۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپی حکومتیں دہشت گردی سے مقابلے میں دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ وہ دہشت گردی کو دو حصوں، اچھی دہشت گردی اور بُری دہشت گردی، میں تقسیم کرتی ہیں۔ وہ دہشت گردی جو امریکی اور یورپی حکومتوں کی پالیسیوں کے مطابق ہو اور ان کے لئے خطرہ بھی نہ ہو تو وہ دہشت گردی نہ صرف یہ کہ بُری نہیں ہے بلکہ ان حکومتوں کی ایسی دہشت گردی کو حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح کی دہشت گردی گزشتہ چند سالوں میں شام، عراق، لبنان اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں دسیوں ہزار انسانوں کی جان لے چکی ہے۔ اب یہی دوہری پالیسی یورپی حکومتوں کے لئے وبال جان بن گئي ہے اور ان کے لئے ایک سنگين چیلنج میں تبدیل ہو گئي ہے۔
دسیوں ہزار سلفی دہشت گردوں نے یورپ کے مذہبی مراکز میں سعودی عرب کی معنوی اور مادی مدد سے تربیت حاصل کرنے کے بعد مشرق وسطی' کا رخ کیا اور یورپی حکومتوں نے ترکی کے راستے شام اور عراق پہنچنے میں ان دہشت گردوں کی مدد کی۔ اب شام اور عراق میں شکست سے دوچار ہونے کے بعد داعش اور دیگر تکفیری گروہوں کے دہشت گرد یورپ کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں نیز یورپ کے لئے سنگین چيلنج اور بدامنی کے ایک ذریعہ میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ روزنامہ ̏ ڈیلی ٹیلی گراف ̋ نے ابھی کچھ دن پہلے اس سلسلے میں لکھا تھا کہ مختلف ممالک کے 27 ہزار افراد عراق اور شام میں داعش گروہ میں شامل ہوئے جن میں 25 فی صد کا تعلق یورپ سے ہے اور اب وہ واپس لوٹ رہے ہیں جو تشویشناک بات ہے۔