ایسی دوستی نہ کرو جس پر پچھتاوا ہو!
روز قیامت بہت سے افراد ایسے ہوں گے جن کی ناکامی اور گمراہی کا سبب ان کے دوست بنے۔
دین اسلام نے دوستی اور دوست بنانے پر بڑی تاکید کی ہے مگر اس کے ساتھ ہی ایسی دوستوں اور دوستی سے منع کیا ہے جس پر انسان کو پچھتاوا اور پشیمانی کا سامنا ہو۔
دوستی میں انسان کو بہت سی باتیں مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے جیسے:دوستی کس سے کی جائے، دوستی کیسے کی جائے، کس حد میں کی جائے، دوستی کیوں کی جائے، دوست کے حقوق کیا ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ
ان میں سے ہر گوشے کے لئے دین اسلام میں خدائے سبحان اور اہل بیت علیہم السلام کے فرامین موجود ہیں جن میں سے ہم کچھ اہم نکات کا یہاں اشارہ کریں گے۔
پہلی چیز تو یہ کہ اگر ہمیں کسی کی شخصیت کے بارے میں شک و تردید ہو اور ہم یہ طے نہ کر پائیں کہ وہ کس طرح کا انسان ہے اور اس کا اخلاق و کردار کیسا ہے،تو ایسے موقع پر اہل بیت علیہم السلام ہماری رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم اُس شخص کے دوستوں کو دیکھیں کہ کون لوگ اس کے حلقۂ احباب میں شامل ہیں۔بحار الانوار میں منقول ایک حدیث میں معصوم فرماتے ہیں کہ ’’فَانظُر إلیٰ خُلَطائِہ‘‘یعنی یہ دیکھو کہ اس کے ساتھ گھلنے ملنے والے کون لوگ ہیں! (بحار الانوار ج ۷۴)
دوسری اہم بات معصومین علیہم السلام نے ہمیں یہ بتائی ہے کہ برے دوست سے بہتر یہ ہے کہ انسان تنہا رہے۔بحار اللانوار،ج ۷۷)
پیغمبر خدا (ص) سے کسی نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ!سب سے بہتر دوست کون سا ہوتا ہے؟آنحضرت نے فرمایا:وہ شخص جسے دیکھ کر تمہیں خدا کا خیال آتا ہو، جس کی گفتگو تمہارے علم میں اضافہ کرتی ہو اور جس کے کردار سے قیامت کا تصور تمہارے اندر تازہ ہوتا ہو۔(تفسیر قطبی)
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں تمہاری ناتوانی کے دور میں تمہارے حقیقی دوست پہچانے جاتے ہیں۔(غرر الحکم)
ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اپنے دوست کو تین حالتوں میں آزماؤ!غصہ کے موقع پر، مالداری کے وقت اور سفر کے دوران۔اگر ان تین موقعوں پر وہ کامیاب رہا تو وہ تمہارا اچھا دوست ہے!(بحار الانوار ج ۷۴)
قرآن کریم کے سورۂ فرقان میں ارشاد ہوتا ہے:
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي؛ہائے میری بد بختی، کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا،اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی…"
کل یعنی روز قیامت بہت سے افراد ایسے ہوں گے جن کی ناکامی اور گمراہی کا سبب ان کے دوست بنے۔اپنے انتخاب پر انہیں پچھتاوا ہوگا اور وہ ہاتھ مل مل کر کہیں گے کہ اے کاش میں نے فلاں سے دوستی نہ کی ہوتی۔