کورونا وائرس کی خاموش تبدیلیوں سے رہیں ہوشیار
نئی طبی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ-19 کی خاموش تبدیلیاں بہت ہی خطرناک ہے۔
امریکا میں ہونے والی طبی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے وائرس کے جینیاتی کوڈ میں 30 ہزار کے قریب خاموش تبدیلیوں کو شناخت کیا ہے جن سے اسے جانوروں سے انسانوں میں چھلانگ لگانے اور ممکنہ طور پر عالمی وبا کی شکل اختیار کرنے میں مدد ملی۔
ان تبدیلیوں کی بدولت ہی وائرس اپنے آر این اے مالیکیولز کے ذریعے انسانی خلیات کو دھوکا دے دیتا ہے۔
ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں ان طریقوں کو استعمال کیا گیا، جس سے اب تک انسانوں میں نئے کورونا وائرس کے جینوں میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا، مگر چمگادڑوں اور پینگولینز میں اس سے جڑے کورونا وائرسز پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا تھا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ آخر کس چیز نے اس وائرس کو اتنا منفرد بنایا۔
ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں وائرس کی اسپائیک پروٹین کو ان کوڈ کرنے والے ایک جین کے فنگرپرنٹس کو شناخت کیا گیا تھا، جو نئے خلیات کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے جینیاتی کوڈ میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے اسپائیک پروٹینز بھی تبدیل ہوئے، جس کی بدولت وائرل اقسام ان تبدیلیوں کے ساتھ زیادہ پھیلنے پھولنے میں کامیاب رہی۔
محققین کے مطابق نئے کورونا وائرس کے جینوم کے 2 حصوں میں آنے والی یہ خاموش تبدیلیاں جن کو این ایس پی 4 اور این ایس پی 16 کا نام دیا گیا ہے، سے بظاہر وائرس کو ماضی کے وائرس کی اقسام کے مقابلے میں پروٹین کو بدلنے میں حیاتیاتی سبقت حاصل ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ پروٹین پر اثرانداز ہونے کی بجائے ان تبدیلیوں نے وائرس کے جینیاتی مواد کو متاثر کیا، جس سے آر این اے بنا جو انسانی خلیات کے اندر مختلف شکلیں بدلنے اور افعال کی صلاحیت رکھتا ہے۔
محققین کے مطابق آر این اے کی ساخت میں یہ تبدیلیاں انسانوں میں اس وائرس کو دیگر کورونا وائرسز سے کس حد تک مختلف بناتی ہیں، یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق سے کوویڈ- 19 کی روک تھام کے لیے نئے مالیکیولر اہداف کی شناخت میں بھی مدد مل سکے گی۔