Feb ۲۱, ۲۰۲۱ ۲۲:۰۰ Asia/Tehran
  • ولادت باسعادت فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

سحرعالمی نیٹ ورک کی جانب سے ہم اپنے تمام ناظرین ، سامعین اور قارئین کرام کی خدمت میں ولادت باسعادت فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی مناسبت پر تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔

فرزند رسول حضرت امام محمد تقی علیہ السلام دس رجب ایک سو پچانوے ہجری قمری کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور اپنے پدربزرگوارحضرت امام رضاعلیہ السلام کی شہادت کے بعد امامت کی ذمہ داری سنبھالی -آپ کے معروف القاب تقی اور جواد ہیں

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی زیارت ۔ آڈیو سننے کے لئے یہاں کلک کریں

آپ کا اسم گرامی محمد،  ابوجعفر کنیت اور تقی علیہ السّلام  وجوّاد علیہ السّلام دونوں مشہور لقب تھے اسی لیے آپ امام محمد تقی علیہ السّلام کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں .چونکہ آپ سے پہلے امام محمد باقر علیہ السّلام کی کنیت ابو جعفر ہوچکی تھی اس لیے کتابوں میں آپ کو ابو جعفر ثانی اور دوسرے لقب کو سامنے رکھ کر حضرت جوّاد بھی کہا جاتا ہے .   آپ کے والد بزرگوار حضرت امام رضا علیہ السّلام تھے اور والدہ معظمہ کا نام جناب سبیکہ یا سکینہ علیہ السّلام تھا .حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کو کمسنی ہی میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہوجانا پڑا .آپ کو بہت کم ہی اطمینان اورسکون کے لمحات میں باپ کی محبت ، شفقت اورتربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کا موقع مل سکا .

آپ کی عمرمبارک صرف پانچ برس تھی جب حضرت امام رضا علیہ السّلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفرکرنے پرمجبور ہوئے تو پھرزندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمد تقی علیہ السّلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السّلام کی وفات ہوگئی .

دنیا سمجھتی ہوگی کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے لیے علمی وعملی بلندیوں تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفرصادق علیہ السّلام کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علمائ سے فقہ حدیث تفسیراورکلام پرمناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا .جب امام رضا علیہ السّلام کو مامون نے ولی عہد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ہوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کئے جائیں اور اس طرح شیعیان اہل بیت علیہ السّلام کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص واتحاد کے مظاہرے کے لیے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ہاشمی خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے ہے ، کچھ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کردی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جہاں ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی .اس نے اپنی بہن ام حبیبہ کاعقد امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیا  اور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کا امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ اعلان کیا .امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول ص کا طرئہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا . ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا. غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا  اوردوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا ، مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اورعلمی اورمذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا . بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پہلے لکھے جاچکے ہیں . امورخانہ داری اورازدواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے اپنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا . آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں . چنانچہ ام الفضل کے ہوتے ہوئے آپ نے حضرت عمار یاسررض کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد کیا اورقدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا . یہی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ہوئیں .ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی . مامون کے دل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا . مگر اسے اب اپنے کیے کو نبھانا تھا . اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابوجعفرعلیہ السّلام کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں . مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا.

جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے . ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجة علیہ السّلام الکبریٰ  اورحضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کے لیے جناب فاطمہ زہرا علیہ السّلام مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیازدینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے . اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد ص محافظ تھے اس لیے امام محمدتقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِعمل اختیارکرنا اپنا فریضہ سمجھا .

812ھ ۔ق میں مامون نے دنیا کو خیر باد کہا .اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا ع کے بعد ولی عہد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پربیٹھا اورمعتصم بالله عباسی کے نام سے مشہورہوا. اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتاربڑھ گئی . جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کوبھیجے تھے . مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کردیا تھا اس لیے اپنی بات کی پچ اورکیے کی لاج رکھنے کی خاطر اس نے ان شکایتوں پرکوئی خاص توجہ نہیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ہوئے تھا اور امام محمدتقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں  میں پیش پیش رہ چکا تھا .اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا . حق بجانب ثابت کرنا تھا , پھر سب سے زیادہ امام محمدتقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت آپ کے اخلاقی اثر کاشہرہ جو حجاز سے بڑھ کرعراق تک پہنچا ہوا تھا وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی اورپھراس سیاست کی ناکامی اورمنصوبے کی شکست کا محسوس ہوجانا جو اس عقد کامحرک ہوا تھا جس کی تشریح پہلے ہوچکی ہے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لیے آمادہ ہوگیا .

اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمد تقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلوابھیجا . حاکم مدینہ عبدالمالک کو اس بارے میں تاکیدی خط لکھا . مجبوراً امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اوران کی والدہ کومدینہ میں چھوڑکربغداد کی طرف روانہ ہوئے .

بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباً ایک سال تک معتصم نے بظاہرآپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے سوا  اور کیا کہا جاسکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثراس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا . 29ذی القعدہ 220ھئ میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی اور اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم  -(ع) کے پاس دفن ہوئے .

نویں امام اور آسمان عصمت و طہارت کے گیارھویں درخشاں ستارے حضرت امام محمد تقی علیہ السلامننن 29 ذیقعدہ سن 220 ہجری قمری کو حکام وقت کے جور و ستم کے تحت شہید ہوگئے اور امامت کی سنگین ذمہ داری آپ کے فرزند حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے کندھوں پر آن پڑی۔

قالَ الإمام الجواد عليه‌السلام: نِعْمَةٌ لاتُشْكَرُ كَسِيَّئَةٍ لاتُغْفَرُ.
وہ نعمت جس کا شکر نہ ادا کیا جائے اُس گناہ کی طرح ہے جسے بخشا نہ گیا ہو۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۳۶۴)
 
قالَ الإمام الجواد عليه ‌السلام: مَنِ اسْتَحْسَنَ قَبيحاً كانَ شَريكاً فيهِ.
جس نے کسی برائی کی تائید کی (اور اس پر راضی رہا) تو وہ اس (کے گناہ) میں بھی شریک ہے۔
(بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۲)
 
قالَ الإمام الجواد عليه‌السلام: لَوْ سَكَتَ الْجاهِلُ مَا اخْتَلَفَ النّاسُ.
جاہل اگر خاموش رہے تو لوگوں میں کبھی اختلاف نہ ہو۔
 (بحارالانوار، ج۷۵، ص۸۱)
 
قالَ الإمام الجواد عليه السلام:مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَي الْقَبْرِ وَقَرَءَ ’’إنّاأنْزَلْناهُ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ‘‘ سَبْعَ مَرّات، أمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الاْكْبَرِ.
جو شخص اپنے مومن بھائی کی قبر پر حاضر ہو اور رو بقبلہ بیٹھے اور اپنے ہاتھ کو اسکی قبر پر رکھ کر سورۂ ’’انّا انزلناہ‘‘ کی سات مرتبہ تلاوت کرے تو وہ میدان حشر کی سختیوں سے امان میں رہے گا۔
(اختيار معرفة الرّجال، ص 564، ح 1066)
 
قالَ الإمام الجواد عليه السلام : التَّوْبَةُ عَلي أرْبَع دَعائِم: نَدَمٌ بِالْقَلْبِ، وَاسْتِغْفارٌ بِاللِّسانِ، وَ عَمَلٌ بِالْجَوارِحِ، وَ عَزْمٌ أنْ لايَعُودَ.
توبہ قبول ہونے کی چار شرطیں ہیں:دل میں احساس ندامت، زبان سے استغفار، گناہ کی تلافی (خدا یا بندے کا اگر کوئی حق ضائع کیا ہے تو اسکو ادا کرے) اور دوبارہ نہ دھرانے کا عزم۔
(ارشاد القلوب ديلمي، ص 160( 
 قالَ الإمام الجواد عليه‌ السلام: مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِي بِطُوسَ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّر. 
جو شخص سرزمین طوس پر میرے پدر کی زیارت کرتا ہے، خداوندعالم اسکے ماضی و مستقبل کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
 (وسائل‌الشیعه، ج۱۴، ص۵۵۰)

 

احادیث شریفہ

دوستوں سے ملاقات

مُلاقاةُ الإخوانِ نَشْرَةٌ، وَ تَلْقيحٌ لِلْعَقْلِ وَ إنْ كانَ نَزْرا قَليلا۔  (شيخ مفيد، الامالى ص328، ح13)

ترجمہ:دوستوں اور بھائیوں کی ملاقات دل کی طراوت اور نورانیت کا باعث اور عقل و درایت کے اضافے کا سبب بنتی ہے خواہ وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو.

امام عصر (عج) کی غیبت

يَخْفى عَلَى النّاسِ وِلادَتُهُ، وَ يَغيبُ عَنْهُمْ شَخْصُهُ، وَ تَحْرُمُ عَلَيْهِمْ تَسْمِيَتُهُ، وَ هُوَ سَمّيُ رَسُول اللّهِ صلى الله عليه و آله وَ كَنّيُّهِ  (وسائل الشّيعہ ج16، ص242، ح21466)

ترجمہ:امام عصر(عج) کی ولادت آپ(عج) کے زمانے کے لوگوں سے مخفی ہوگی اور آنجناب (عج) کی شخصیت لوگوں سے خفیہ ہوگی اور حرام ہے کہ کوئی آپ (عج) کا نام زبان پر لائے اور آپ رسول اللہ(ص) کے ہمنام اور ہم کنیت ہیں.۔

دیکھو کس کی بات سن رہے ہو!

مَنْ أصْغى إلى ناطِقٍ فَقَدْ عَبَدَهُ، فَإنْ كانَ النّاطِقُ عَنِ اللّهِ فَقَدْ عَبَدَاللّهَ، وَ إنْ كانَ النّاطِقُ يَنْطِقُ عَنْ لِسانِ إبليس فَقَدْ عَبَدَ إبليسَ۔ (محدث نوری، مستدرك الوسائل، ج17، ص308، ح5)

ترجمہ:جو شخص کسی مقرر یا خطیب کی طرف مائل ہوتا ہے گویا وہ اسکی پرستش کرتا ہے۔ لہٰذا اگر وہ مقرر خدا کے لئے اور خدا کے معارف و احکام کو عام کرنے کے لئے بولتا ہو تو اس شخص (پرستار) نے اللہ کی بندگی کی ہے اور اگر مقرر شیطان کی زبان اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لئے بولتا ہو تو وہ (پرستار) ابلیس کا بندہ ہے.

دیندار کا رشتہ مت ٹھکراؤ

مَنْ خَطَبَ إلَيْكُمْ فَرَضيتُمْ دينَهُ وَ أمانَتَهُ فَزَوِّجُوهُ، إلّا تَفْعَلُوهُ تَكْنُ فِتْنَةٌ فِى الأرْضِ وَ فَسادٌ كَبيرْ۔ (طوسی، تہذيب الاحكام، ج7، ص396، ح9)

ترجمہ: جس نے تم سے [بیٹی یا بہن کا] رشتہ مانگا اور تمہیں اس کا دین پسند آیا تو وہ رشتہ قبول کرو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تمہارا یہ عمل روئے زمان پر عظیم برائی کا سبب بنے گا.

علیؑ کا علم

عَلَّمَ رَسُولُ اللّهِ صلّى اللّه عَلَيْهِ وَ آلِهِ وَ سَلَّمَ عَلّيا عَلَيْهِ السَّلامُ ألْفَ كَلِمَةٍ، كُلُّ كَلِمَةٍ يَفْتَحُ ألْفُ كَلِمَةٍ (صدوق، الخصال، ج2، ص650، ح46)

ترجمہ:رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے امیرالمؤمنینؑ کو ایک ہزار کلمات سکھائے؛ ہر کلمے سے ہزار ابوابِ علم کھلتے ہیں۔

مکمل رکوع کا فائدہ

مَنْ أتَمَّ رُكُوعَهُ لَمْ تُدْخِلْهُ وَحْشَةُ الْقَبْرِ (کلینی، الكافى ج3، ص321، ح7)

ترجمہ:جو شخص اپنی نماز کا رکوع مکمل اور صحیح طور پر انجام دے وہ قبر میں خوف و ہراس کا شکار نہ ہوگا۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت

الأمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّهْىُ عَنِ الْمُنْكَرِ خَلْقانِ مِنْ خَلْقِ اللّهِ عَزَّ وَ جَلَّ، فَمْن نَصَرَهُما أعَزَّهُ اللّهُ، وَمَنْ خَذَلَهُما خَذَلَهُ اللّهُ عَزَّ وَ جَلَّ  (صدوق، خصال، ص42، ح32)

ترجمہ:امر بالمعروف اور نہى عن المنكر خدائے عزّوجلّ کی دو مخلوقات ہیں پس جو ان دو کی مدد کرتا ہے خداوند عالم انہیں عزت و عظمت عطا کرتا ہے اور جو انہیں بے یار و مددگار چھوڑتا ہے خداوند متعال ان کو [دنیا اور آخرت میں] بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔

خدا کا انتخاب

إنَّ اللّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَخْتارُ مِنْ مالِ الْمُؤْمِنِ وَ مِنْ وُلْدِهِ أنْفَسَهُ لِيَأجُرَهُ عَلى ذلِكَ 

ترجمہ:بے شک خداوند متعال مؤمن کے مال و اولاد میں سے بہترین مال اور فرزند منتخب کرکے لے لیتا ہے تا کہ انہیں اس کے بدلے اجر عظیم عطا فرمائے۔

قلیل عار اور طویل سزا

قالَ رجل للإمام علیہ السلام: أوصِنى بَوَصِيَّةٍ جامِعَةٍ مُخْتَصَرَةٍ؟ فَقالَ عليه السلام: صُنْ نَفْسَكَ عَنْ عارِ الْعاجِلَةِ وَ نار الْآجِلَةِ  (کلینی، الکافی، ج3، ص218، ح3)

ترجمہ :ایک شخص نے امام جوادؑ کی خدمت میں عرض کیا: مجھے نصیحت و موعظہ فرمائیں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اپنے آپ کو [اور اپنے ظاہری اور باطنی اعضاء و جوارح کو] قلیل المدت عار و ننگ اور شرم و ذلت اور طویل المدت عذاب دوزخ سے محفوظ رکھو۔

(مفہوم یہ کہ دنیا کے گناہ اور ان کی لذت قلیل المدت اور ان کی سزا طویل المدت ہے جس سے بچ کے رہنا چاہئے)۔

تین چیزیں باعث محبت

ثَلاثُ خِصالٍ تَجْتَلِبُ بِهِنَّ الْمَحَبَّةُ: الإنْصافُ فِى الْمُعاشَرَةِ، وَ الْمُواساةُ فِى الشِّدِّةِ، وَ الإنْطِواعُ وَ الرُّجُوعُ إلى قَلْبٍ سَليمٍ  (اربلی، كشف الغمّه، ج2، ص349، س 13)

ترجمہ: تین خصلتیں محبت کو کھینچ لیتی ہیں (اور لوگ ان خصلتوں کے مالک افراد سے محبت کرتے ہیں): لوگوں کے ساتھ معاشرت میں انصاف کی راہ پر گامزن رہنا، ان کے مسائل و مشکلات میں ان سے ہمدردی کرنا اور قلب سلیم کی جانب رجوع کرکے معنویات اور نیک اعمال کی طرف توجہ دینا۔

ابرار کی خصلتیں

ثَلاثٌ مِنْ عَمَلِ الأبْرارِ: إقامَةُالْفَرائِض، وَاجْتِنابُ الْمَحارِم، واحْتِراسٌ مِنَ الْغَفْلَةِ فِى الدّين (اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س3)

ترجمہ:تین چیزیں نیک لوگوں کے اعمال میں سے ہیں: واجبات الہی کی ادائیگی، گناہ ترک کرنا اور گناہوں سے دوری کرنا اور دین میں غفلت سے اجتناب کے حوالے سے ہوشیار رہنا۔

روضۂ امام رضا (ع) جنت کا ٹکڑا

إنَّ بَيْنَ جَبَلَىْ طُوسٍ قَبْضَةٌ قُبِضَتْ مِنَ الْجَنَّةِ، مَنْ دَخَلَها كانَ آمِنا يَوْمَ الْقِيامَةِ مِنَ النّار (صدوق، عيون اخبارالرّضا، ج2، ص256، ح6)

ترجمہ: بے شک شہر طوس [مشہد مقدس] کے دو پہاڑوں کے درمیان ایک ٹکڑا ہے جو جنت سے لیا گیا ہے جو بھی زمین کے اس ٹکڑے میں داخل ہوگا [اور معرفت کے ساتھ وہاں مدفون امام کی زیارت کرے گا] قیامت کے روز جہنم کی آگ سے محفوظ رہے گا۔

قبور مؤمنین کی زیارت

مَنْ زارَ قَبْرَ أخيهِ الْمُؤْمِنِ فَجَلَسَ عِنْدَ قَبْرِهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى الْقَبْرِ وَقَرَءَ: ((إنّاأنْزَلْناهُ فى لَيْلَةِالْقَدْرِ)) سَبْعَ مَرّاتٍ، أمِنَ مِنَ الْفَزَعَ الأكْبَرِ (طوسی، اختيارمعرفۃ الرّجال، ص564، ح1066)

ترجمہ: جو شخص اپنے مؤمن بھائی کی قبر کی زیارت کرے اور قبلہ رو ہو کر بیٹھ جائے اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھے اور سات مرتبہ سورہ قدر )انا انزلنہ...) کی تلاوت کرے وہ قیامت کے عظیم خوف و ہراس اور سختیوں سے محفوظ رہے گا۔

رضوان الہی کے اسباب

ثَلاثٌ يَبْلُغْنَ بِالْعَبْدِ رِضْوانَ اللّهِ: كَثْرَةُ الإسْتِغْفارِ، وَ خَفْضِ الْجْانِبِ، وَ كَثْرَةِ الصَّدَقَةَ (اربلی، كشف الغمّة، ج2، ص349، س7)

ترجمہ: تین چیزیں بندے کو رضوان الہی اور اللہ کی رضا کی منزل پر پہنچاتی ہیں: 1۔ گناہوں سے زیادہ استغفار کرنا 2۔ تواضع اور انکساری، 3۔ خوب صدقہ دینا

 
 

ٹیگس