سی آئی اے کے حکام پر مقدمہ چلایا جائے: ہیومن رائنس وآچ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے قیدیوں پر تشدد کے جرم میں سی آئی اے کے عہدیداروں کے خلاف مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ سن دوہزار کے برسوں میں قیدیوں کے خلاف تشدد کا حکم دینے والے سی آئی اے کے عہدیدارروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ہیومن رائٹس واچ نے امریکی حکومت کے جن، اکیس سابق عہدیداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے ان میں سابق امریکی صدر جارج بش، نائب صدر ڈک چینی، سی آئی اے کے سابق سربراہ جار ٹینٹ، سابق وزیر انصاف جان ایشکرافٹ اور نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کونڈو لیزا رائس کے نام بھی شامل ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ سی آئی اے نے گزشتہ سال دسمبر میں تفتیشی طریقہ کار کے بارے میں جو مفصل رپورٹ جاری کی تھی اس نے اوباما انتطامیہ کو، تحقیقات شروع کرنے کی غرض سے، کافی شواہد فراہم کر دیئے ہیں۔
امریکہ نے سن دوہزار ایک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے افغانستان اور عراق میں ایذارسانی کے نت نئے طریقے استعمال کیے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظمیوں نے بارہا حکومت امریکہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بارے میں وضاحت پیش کرے لیکن عملی طور پر اس کا کوئی جواب ملا اور نہ ہی کسی امریکی عہدیدار کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔ واٹربورڈنگ، سونے نہ دینا اور قیدیوں کو صندوقوں میں بند کرنا سی آئی اے کے ایسے طریقے ہیں جن کا سینیٹ کی انٹیلی جینس کمیٹی کی رپورٹ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ بعد میں سی آئی اے کے ایذار رسانی کے دوسرے بھیانک طریقوں کا بھی انکشاف ہوا ہے جس کے نتیجےمیں حکومت امریکہ پر تشدد اور ایذا رسانی میں ملوث عناصر اور اس کا حکم دینے والے عہدیداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے دباؤ میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ سی آئی اے نے تیرہ افراد کو واٹر بورڈنگ سے بھی زیادہ خطرناک، واٹر ڈوزنگ جیسے شکنجے دیئے ہیں۔
صدر براک اوباما نے امریکی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کا اسکینڈل سامنے آنے کے بعد، سن دوہزار نو میں، ایذائیں دینے کا سلسلہ بند کرنے کا حکم دیا تھا لیکن وہ ایذا رسانی میں ملوث عناصر اور اس کا حکم دینے والوں کے خلاف قانونی چارہ کرنے میں ناکام ہوگئے تھے۔