Jan ۰۳, ۲۰۱۶ ۱۹:۳۲ Asia/Tehran
  • امریکا آسانی کے ساتھ شیخ نمر کی سزائے موت پر عمل درآمد رکوا سکتا تھا: بری گروسمین

ایک معروف بین الاقوامی وکیل نے کہا ہے کہ امریکا آسانی کے ساتھ سعودی عالم دین شیخ باقر نمر کی موت کی سزا پر عمل درآمد کو رکوا سکتا تھا۔

معروف بین الاقوامی وکیل بری گروسمن نے پرس ٹی وی سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ درحقیقت امریکا شیخ باقر نمر کی سزائے موت پر عمل درآمد کو رکوا سکتا تھا کیونکہ سعودی دربار امریکا سے بہت زیادہ وابستہ ہے- اس معروف بین الاقوامی وکیل نے کہا کہ سعودی عرب کے بھی اسرائیل کی طرح امریکا سے خاص تعلقات ہیں اور اگر اوباما انتظامیہ شیخ نمر اور دیگر لوگوں کے حقوق پر جنھیں ہفتے کو پھانسی دی گئی، توجہ دیتی تو آسانی کے ساتھ موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کو رکوا سکتی تھی کیونکہ پچھلے چند مہینے سے اوباما خود سعودی عرب اور سعودی دربار سے اپنے تعلقات کو مسلسل تقویت دے رہے تھے۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کا دم بھرنےوالے امریکا نے آیت اللہ شیخ باقر نمر کی شہادت پر صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کیا کہ شیخ نمر کو موت کی سزا دئے جانے سے فرقہ وارانہ اور مسلکی اختلافات میں اور شدت آئے گی-

معروف بین الاقوامی وکیل گروسمن نے کہا کہ شیخ نمر کو موت کی سزا دئے جانے کے بعد امریکا، مغربی ملکوں اور دیگر ممالک کی طرف سے جو بیانات سامنے آئے وہ مایوس کن تھے- ان کا کہنا تھا کہ شیخ باقر نمر کا سر قلم کرنے کے سعودی حکومت کے اقدام پر ملکوں کے سربراہوں کو اپنا ردعمل ظاہر کرنا چاہئےتھا نہ کہ نچلی سطح پر صرف ایک بیان جاری کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکی وزارت خارجہ نے ایک معمولی سابیان جاری کیا ہے تو وہ بھی صرف اپنی آبرو بچانے کے لئے ہے-

اس درمیان برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے مشرق وسطی کے معاملات کےنمائندے اور معروف صحافی رابرٹ فیسک نے بھی سعودی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام کی مذمت کی ہے- برطانوی صحافی رابرٹ فیسک نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ ممتاز مذہبی رہنما شیخ باقر نمر کو موت کی سزا دینے سے سعودی حکومت کا بنیادی مقصد پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں کومشتعل کرنا اور مذہبی اختلافات کو فرقہ پرستی کی بنیاد پر مزید ہوا دینا ہے جس کو داعش نے پہلے ہی کافی حد تک ہوا دے رکھی ہے- برطانوی صحافی رابرٹ فسیک نے سعودی حکومت کے اس وحشیانہ اقدام پر اپنے ردعمل کا اظہا کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت اور داعش میں فرق صرف یہ ہے کہ سعودی حکومت نے شیخ نمر کا سر قلم کر کے اس کی ویڈیو نشر نہیں کی- مذکورہ صحافی کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس بھی سعودی عرب میں ایک سو اٹھاون لوگوں کی اسی طرح سے گردنیں اڑائی گئیں جس طرح داعش گروہ لوگوں کے سرقلم کرتا ہے- انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی حکومت اس وقت دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے شیعہ اور سنی مسلمانوں کا ایک ساتھ خون بہا رہی ہے -

برطانوی صحافی نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ آیت اللہ شیخ باقر نمر سعودی عرب کے الشرقیہ علاقے میں امام جمعہ تھے اور وہ کسی گروہ سے وابستہ ہوئے بغیر ملک میں سیاسی اصلاحات اور آزادانہ انتخابات کی بات کرتے تھے لیکن سعودی حکومت نے انہیں ہمیشہ قید کیا اور ایذائیں پہنچائیں - اس برطانوی صحافی نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ شیخ باقر نمر کا کہنا تھا کہ زبان کی طاقت اسلحے اور تشدد کی طاقت سے زیادہ موثر ہوتی ہے- برطانوی اخبار انڈیپنڈنٹ کے صحافی نے اپنے مقالے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب کے ممتاز عالم دین کی شہادت سے یمن کی عوامی تحریک کے نوجوانوں میں نئی طاقت پیدا ہوئی ہے اور بحرینی عوام میں بھی شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے جبکہ بہت سے ایرانی علما کا کہنا ہے کہ شیخ باقر نمر کی مظلومانہ شہادت آل سعود خاندان کی حکومت کی سرنگونی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گی-

اس برطانوی صحافی نے مغربی حکومتوں کے رویّے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان تمام باتوں کے باوجود مغرب خود کو خلیج فارس کی استبدادی اور دولتمند حکومتوں کے مقابلے میں بدستور ذلیل کر رہا ہے اور انتہائی نرم لہجے میں ہی سعودی عرب میں انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتا ہے۔