یونان میں تارکین وطن کا احتجاجی مظاہرہ، پناہ گزینوں کے بارے میں یورپی یونین کی پالیسیوں کو غیر انسانی قرار دے دیا
یونان میں تارکین وطن نے احتجاجی مظاہرہ کرکے پناہ گزینوں کے بارے میں یورپی یونین کی پالیسیوں کو غیر انسانی قرار دیا ہے۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق مشرقی یونان کے جزیرہ چیوس میں تارکین وطن نے یورپی یونین اور ترکی کے حالیہ معاہدے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یونان کی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ پناہ گزینوں نے احتجاجی مظاہرے کے دوران اپنے کیمپوں کے گرد لگے خاردار تاروں کو کاٹنے کی کوشش کی۔ اس رپورٹ کےمطابق بعض پناہ گزینوں نے کیمپوں کے اندر توڑ پھوڑ بھی کی۔ یونان کی پولیس کے مطابق مظاہرے کے دوران کم سے کم دس افراد زخمی ہوئے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ تارکین وطن کے بارے میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان انجام پانے والے معاہدے کے مطابق بیس مارچ دو ہزار سولہ کے بعد پناہ کے لئے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کو ترکی لوٹا دیا جائے گا۔ معاہدے پر عمل درآمد کے لئے یورپی یونین نے کئی ہزار افراد کو یونان روانہ کر دیا ہے جو پیر چار اپریل سے اس معاہدے کے مطابق تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجنے کی کارروائی شروع کر دیں گے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزینان نے یورپ سے تارکین وطن کو ترکی واپس کئے جانے کے پروگرام پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
رائٹرز کے مطابق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزینان کی ترجمان ملیسا فلیمنگ نے جنیوا میں ایک بیان میں کہا ہے کہ پناہ کے لئے یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کو ترکی واپس کئے جانے کے نتائج المناک ہو سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یورپ سے پناہ گزینوں کو ترکی واپس کئے جانے سے پہلےاس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ تارکین وطن کے سلسلے میں معاہدے کے مطابق ہی عمل کیا جائے گا۔ انھوں نے یونان میں پناہ گزینوں کے بدتر حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پناہ کے لئے یورپ آنے والے تارکین وطن کو ایسی حالت میں واپس کئے جانے کا پروگرام طے کیا گیا ہے کہ جب یونان اور ترکی دونوں ملکوں میں پناہ گزینوں کی مشکلات اپنی جگہ پر برقرار ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزینان کے ایک اعلی عہدیدار ایڈریان ایڈورڈ نے کہا ہے کہ پناہ گزینوں کے مسئلے کو مکمل طور پر سیاسی بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس بحران کے حل میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔
اسی کےساتھ یورپ میں دہشت گردی کو پناہ گزینوں سے منسوب کرنے کی کوشش نے ان کے لئے حالات کو بدتر کر دیا ہے۔ چنانچہ بلجیئم کی انٹیلیجنس سروس نے دعوی کیا ہے کہ اس ملک میں موجود پناہ گزینوں کے داعش سے رابطے ہیں۔ بلجیئم کے ذرائع ابلاغ عامہ نے بتایا ہے کہ ملک کی انٹیلیجنس سروس نے داعش کے ساتھ روابط کے تعلق سے بارہ ہزار تارکین وطن اور پناہ گزینوں میں سے سینتیس افراد کے بارے میں تحقیقات انجام دی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ بائیس مارچ کو بلجیئم کے دارالحکومت برسلز کے ہوائی اڈے اور میٹرو اسٹیشن میں خودکش بم دھماکوں میں پینتس افراد ہلاک اور تقریبا تین سو زخمی ہو گئے تھے۔ ان دھماکوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ مشرق وسطی بالخصوص شام اور عراق سے ترکی کے راستے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن، اپنے ملکوں میں مغربی ملکوں کی بھڑکائی ہوئی دہشت گردی کی جنگ کے نتیجے میں اپنا گھر بار اور وطن چھوڑ کر یورپ کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے پناہ گزینان کے مطابق رواں عیسوی سال کے آغاز سے اب تک ایک لاکھ پچپن ہزار تارکین وطن بحیرہ روم کے خطرناک راستے سے یورپ پہنچے ہیں۔