میانمار کے مسلمانوں کی مشکلات حل کرنے پر زور
ہیومن رائٹس واچ نے آسیان کے رکن ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات کے حل کے لیے اپنی پوری توانائیاں بروئے کار لائیں۔
ہیومن رائٹس واچ نے یہ درخواست ایسے وقت میں کی ہے جب آسیان کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا اجلاس پیر کے روز میانمار کے قدیم دارالحکومت یانگون میں ہونے والا ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے نے آسیان کے رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ یانگون اجلاس کے دوران روہنگیا مسلمانوں کی مشکلات ختم کرنے کے لیے کسی راہ حل تک پہنچنے کی کوشش کریں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کے واقعات کی تصدیق کے بعد حکومت میانمار نے آسیان کے رکن ملکوں کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ نے سولہ دسمبر کو اپنے ایک بیان میں آنگ سان سوچی کی قیادت والی میانمار کی سول حکومت پر کڑی نکتہ چینی کی تھی۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ حکومت میانمار روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو حل کرنے میں انتہائی ظلم اور کوتاہ فکری سے کام لے رہی ہے۔
میانمار کی فوج کے ظلم و ستم اور حملوں سے تنگ آکر ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان، اپنا گھر بار چھوڑ کر ملائیشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا سمیت پڑوسی ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس سے قبل ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سیٹلائٹ سے حاصلہ تصاویر سے نشاندھی ہوتی ہے کہ صوبہ راخین میں مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے گھروں کو جلائے جانے میں میانمار کی فوج اور حکومت ملوث ہے۔
حکومت میانمار، روہنگیا مسلمانوں کو اپنے ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتی جس کی وجہ سے انہیں سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر تشدد اور ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر نوبل انعام حاصل کرنے والی میانمار کی خاتون رہنما آنگ سان سوچی نے بھی مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نا انصافیوں پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
واضح رہے کہ میانمار میں مسلمانوں کو کافی عرصے سے تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سنہ دو ہزار بارہ میں شروع ہونے والے انتہا پسند بدھسٹوں کے وحشیانہ حملوں میں چھے سو پچاس سے زائد مسلمان جاں بحق ہو گئے تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا مسلمانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔