جزیزہ نمائے کوریا جنگ کے دھانے پر پہنچ گیا ہے، روسی صدر
روس کے صدر ولادی میر پوتن نے جزیرہ نمائے کوریا میں جاری کشیدگی کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس کے مطابق صدر ولادمیر پوتن نے جزیر نمائے کوریا میں جاری کشیدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ شمالی کوریا کے معاملے کو مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔روسی صدر کا کہنا تھا کہ خطے کی مشکلات کو براہ راست مذاکرات اور کسی بھی فریق کی جانب سے پیشگی شرط کے بغیر حل کرنے کی ضرورت ہے۔صدر پوتن نے واضح کیا کہ فوجی نقل و حرکت، دباؤ کے حربوں، اشتعال انگیزی اور توہین آمیز بیانات سے جزیرہ نمائے کوریا کا بحران مزید پیچیدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ شمالی کوریا کے خلاف دباؤ اور پابندیوں کی پالیسی کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔روسی صدر نے بتایا کہ ماسکو اور بیجنگ نے جزیزہ نمائے کوریا کے بحران کو حل کرنے کا نقشہ راہ تیار کرلیا ہے جس کا مقصد علاقے میں کشیدگی کو کم اور پائیدار امن کے قیام کے لیے لازمی تدابیر اختیار کرنا ہے۔قابل ذکر ہے کہ برکس کے رکن ملکوں، برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ کا سربراہی اجلاس تین ستمبر سے چین کے شہر شیامن میں ہوگا جس میں جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کا جائزہ لیا جائے گا۔پچھلے چند ہفتے کے دوران جزیرہ نمائے کوریا کی کشیدگی میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور شمالی کوریا اور امریکہ نے ایک دوسرے کو براہ راست نشانہ بنانے کی دھمکی دی ہے۔شمالی کوریا نے سلامتی کونسل کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں میں اضافے کے بعد دھمکی دی ہے کہ وہ امریکہ کو بیلیسٹک میزائل سے نشانہ بنائے گا۔اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی شمالی کوریا کو غضب کی آگ کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی۔شمالی کوریا نے گزشتہ منگل کو ایک اور میزائیل کا تجربہ کیا ہے جو جاپان کی فضائی حدود کو عبور کرتا ہوا اس ملک کے شمالی سمندری علاقے میں گرا ہے۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اون نے کہا ہے کہ میزائل کا یہ تجربہ جزیرہ نمائے کوریا میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مشترکہ فوجی مشقوں کے جواب میں کیا گیا ہے جسے پیونگ یانگ اپنے خلاف جنگ کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے۔میزائل کے پے در پے تجربات کی وجہ سے شمالی کوریا کو کافی عرصے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مخاصمانہ پالیسیوں اور اقوام متحدہ کی پابندیوں کا سامنا ہے۔