ٹرمپ کا ایک بار پھر ایٹمی معاہدے کے خلاف بیان
امریکی صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدہ بدترین معاہدہ ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ اس سے قبل بھی بارہا ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق ملکوں منجملہ برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے برخلاف ایٹمی معاہدے کو بدترین معاہدہ قرار دیتے رہے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ، اس بات کا دعوی کرتے ہوئے کہ اس معاہدے سے صرف ایران کو فائدہ پہنچ رہا ہے اسے منسوخ اور یا اس میں اصلاح کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موگرینی اور ایٹمی معاہدے کے دیگر فریق ملکوں کے حکام نے بارہا تاکید کی ہے کہ ایٹمی معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور وہ کوئی دو طرفہ معاہدہ نہیں ہے کہ جسے دوبارہ تیار یا اس میں کوئی اصلاح کی جا سکے۔ہمارے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے اخبار ہیوم سے گفتگو میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بارے میں اپنے اعلان کا دفاع کیا اور کہا کہ امریکہ ہمیشہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔انھوں نے کہا کہ بیت المقدس کے بارے میں وہ کبھی اپنے اعلان پر شرمندہ نہیں ہوں گے۔امریکی صدر ٹرمپ نے 6 دسمبر 2017 کو وسیع علاقائی و عالمی مخالفتوں کے باوجود اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم کرتا ہے۔یہ ایسی حالت میں ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 21 دسمبر 2017 کو بیت المقدس کی حمایت میں 128 ووٹوں سے ایک قرارداد کی منظوری دی ہے جس میں تاکید کے ساتھ اعلان کیا گیا ہے کہ اقوام متحدہ بیت المقدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرے گی۔بیت المقدس کہ جہاں مسلمانوں کے قبلہ اول یعنی مسجد القصی واقع ہے فلسطین کا اٹوٹ حصہ اورمسلمانوں کے تین مقدس مقامات میں سے ایک اہم مقام ہے ۔اس شہر پر اسرائیل نے سنہ 1967 سے قبضہ کر رکھا ہے۔