جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کے پرامن حل پر زور
جنوبی کوریا اور روس کے اعلی سفارت کاروں نے، جزیرہ نمائے کوریا کے بحران کو پرامن طریقے سے حل کیے جانے کی ضرورت پر زور دیاہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر خارجہ کانگ کیونگ وا نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے موقع پر اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاؤ روف سے ملاقات اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کا حل تلاش کیے جانے کی ضرورت پر بات چیت کی ہے۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارجہ کے بیان میں آیا ہے کہ سیول اور ماسکو شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کے پرامن حل کے خواہاں ہیں۔
جنوبی کوریا کی وزارت خارج کے جاری کردہ بیان کے مطابق روس اور چین کے اعلی ترین سفارتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ دونوں امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مذاکرات سمیت ہر اس بات چیت کا خیر مقدم کرتے ہیں جس سے علاقے کی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے۔
دوسری جانب روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاؤ روف نے امریکہ کی جانب شمالی کوریا کے خلاف فوجی طاقت کے ممکنہ استعمال کے بارے میں خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے جائیں گے۔
سرگئی لاؤروف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی بار دھمکی دے چکے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال سے گریز نہیں کریں گے۔
روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی عہدیداروں کے اس قسم کے بیانات کا روس اور دیگر ملکوں نے بغور جائزہ لیا ہے اور بارہا خبردار کیا جاچکا ہے کہ شمالی کوریا کے خلاف طاقت کا استعمال انسانی المیے پر منتج ہوگا۔
سرگئی لاؤ روف نے امید ظاہر کی کہ سرمائی اولمپک کے دوران شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان جو سازگار ماحول پیدا ہوا ہے وہ جاری رہے گا اور جزیر نمائے کوریا میں قیام امن کے لیے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
روسی وزیر خارجہ نے ایک بار پھر ماسکو کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ جزیرہ نمائے کوریا کے بارے میں چھے فریقی مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے متعلقہ فریقوں سے رابطوں اور صلاح و مشورے کاسلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ سن دوہزار تین میں چین کی کوششوں سے شمالی کوریا کے ایٹمی معاملے کے حل کی غرض سے چھے فریقی مذاکرات کا آغاز ہوا تھا اور سن دوہزار پانچ میں، چین، شمالی کوریا، جاپان، جنوبی کوریا، امریکہ اور روس نے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے شمالی کوریا سے کیے گئے وعدے پورے نہ کرنے کے سبب سن دو ہزار آٹھ میں یہ معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا تھا۔