شمالی کوریا نے امریکی دعوؤں کو مسترد کردیا
شمالی کوریا نے اعلی امریکی عہدیدار اور اقوام متحدہ کے معائنہ کار گروہ کے اس دعوے کو سختی کے ساتھ مسترد کردیا ہے کہ شمالی کوریا نے شام کو کیمیائی ہتھیار فراہم کیے ہیں۔
شمالی کوریا کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ شام کو ایسے ہتھیار فراہم نہیں کیے بلکہ کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری اور نگہداشت پر پابندی کے عالمی قوانین کی بھی کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔شمالی کوریا کی وزارت خارجہ کے بیان میں امریکہ کے اس دعوے کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس طرح کے دعووں کا مقصد پیانگ یانگ کے خلاف زیادہ سے زیادہ پاپندیاں لگانے کا راستہ ہموار کرنا ہے۔شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ دنیا میں کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والا پہلا ملک امریکہ ہے جس نے سن انیس سو پچاس سے ترپن کے عرصے میں جنگ کوریا کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور تقریبا پچاس ہزار کوریائی شہریوں کا قتل عام کیا۔امریکہ نے شمالی کوریا کی جانب سے شام کو کیمیائی ہتھیار فراہم کرنے کا دعوی ایسے وقت میں کیا ہے جب شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی ہے اور جنوبی کوریا کا اعلی سطحی وفد عنقریب شمالی کوریا کا دورہ بھی کرنے والا ہے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان پیدا ہونے والی اس نرمی نے امریکیوں کو پریشان کردیا ہے۔دوسرے یہ کہ امریکہ کے تمام تر دباؤ کے باوجود شمالی کوریا نے نہ صرف اپنے ایٹمی اور دفاعی موقف سے پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ اس نے علاقے کی رائے عامہ کے درمیان امریکی موقف اور اقدامات کی پذیرائی کو مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔شمالی کوریا کی سمندری حدود کے قریب امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کی آمد اور علاقے میں فوجی اثرو رسوخ میں اضافے کی وجہ سے خطے میں خوف اور وحشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اور ایسی صورتحال میں شمالی کوریا کا اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو تقویت دینا علاقے کی رائے عامہ کو جائز اور منطقی دکھائی دیتاہے۔بہرحال شمالی کوریا کا خیال ہے کہ عالمی رائے عامہ کے سامنے اگر کسی کو جوابدہ ہونا چاہیے تو وہ امریکہ ہے جس نے جنگ کوریا کے دوران لاتعداد جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرکے پچاس ہزار کوریائی باشندوں کو موت کی نیند سلا دیا تھا۔