Jul ۱۶, ۲۰۱۸ ۱۸:۰۵ Asia/Tehran
  •   بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے...- آرٹیکل

شام سے ایران کو خارج کرنے کی عرضی لے کر اس سال تیسری بار ماسکو پہنچے نتن یاہو کے ارمانوں کا پوتین نے یہ کہہ کر خون کر دیا کہ نتن یاہو فٹبال میچ دیکھنے روس آئے ہیں۔

بدھ کے روزنتن یاہو سے ملاقات میں پوتین نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ فٹبال میچ دیکھنے کے لئے آپ کے نجی دورہ ماسکو کے دوران آپ سے ملاقات ہو رہی ہے۔

نتن یاہوں کے دورہ ماسکو کے بارے میں مشہور عرب تجزیہ نگار عبد الباری عطوان نے متعدد حقائق کی جانب اشارہ کیا، وہ لکھتے ہیں :

اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو نیا سال شروع ہونے کے بعد سے تیسری بار ماسکو پہنچے ہیں۔ ان کے اس دورے کا ہدف، پوتین سے یہ اپیل کرنا کہ سرکار! شام سے ایران کو نکال دیں! در اصل اسرائیل، شام میں ایران کی موجودگی کو اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے اور اسی لئے وہ بارہا پوتین سے اپیل کررہا ہے تاہم اس بار بھی نتن یاہو کو اس دورے میں سوائے اس کے کہ انہوں نے انگلینڈ- کرویشیا کا میچ ماسکو میں دیکھ لیا، مزید کوئی فائدہ نہیں ملا۔

در اصل پوتین، نتن یاہو کی بات ماننے کے موڈ میں ہی نہیں ہیں اور یوں بھی شام سے ایران اور اس کے اتحادیوں کا نکلنا، مفاد میں نہیں ہوگا، اگر ہم یہ مان لیں کہ روس کے بس میں ہے۔

شام سے ایران اوراس کے اتحادیوں کے نکلنے کی بھاری قیمت چکانی ہوگی اوراس کا سب سے کم اثر یہ ہوگا کہ دہشت گردوں کے خلاف ملنے والی اب تک کی ساری کامیابیاں، ناکامیوں میں بدل جائیں گي اور افغانستان کی طرح ایک خونی جنگ کا آغاز ہو جائے گا۔ شاید امریکا کے دوست اسرائیل کی یہی خواہش ہے مگر پوتین تو افغانستان میں سوویت یونین کا تجربہ دہرانا نہیں چاہیں گے۔

شام میں ایران کی موجودگی اس ملک کی قانونی حکومت کی اپیل پرہے اوراس نے دہشت گردی کے خلاف بڑی کامیابیاں حاصل کی ہے تو کیا یہ صحیح ہوگا کہ اب اس مرحلے میں وہ شام سے نکل جائے؟

ایک اہم سوال ہے جس کا جواب دینے سے لوگ پرہیز کرتے ہیں اور خاص طور پر اسرائیلی وزیر اعظم، وہ سوال یہ ہے کہ اگر پوتین نے ایران کے بارے میں اسرائیل کا مطالبہ نہیں قبول کیا تو پھر نتن یاہو کیا کریں گے؟ کیا وسیع پیمانے پر جنگ چھیڑ دیں گے؟

اسرائیل 2000 میں جنوبی لبنان میں حزب اللہ سے شکست کھا کر فرار ہو چکا ہے، 2006 میں اس سے بڑی شکست کا مزہ چکھ چکا ہے اور غزہ پٹی میں حماس کو سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے میں ناکام رہا ہے تو کیا اس کے لئے یہ ٹھیک ہوگا کہ وہ طاقتور ایران کی حمایت یافتہ شامی فوج کے خلاف محاذ آرائی کرے جو سات برسوں سے دسیوں محاذ پر بر سر پیکار رہی ہے؟

 اسرائیل کے پاس، شام کے فوجی ٹھکانوں پر فضائی حملے کرنے علاوہ مزید کوئی ہتھیار نہیں ہے اور اس سے شام میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی موجودگی کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں ہے۔ جیسا کہ اسرائیل، حزب اللہ کے میزائلوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے اور جیسا کہ اسرائیل کے فوجی ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ حزب اللہ کی طاقت میں پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے اور ڈیڑھ لاکھ میزائل تو ہے ہی اس کے پاس۔ تو پھر نتن یاہو کے لئے بہتر ہوگا کہ گزشتہ سات برسوں کی ہی طرح بس دھمکیاں دیتے رہیں اور شامی فوج، روس اور ایران کی مدد سے کامیابیاں حاصل کرتی رہیں گی۔ فن لینڈ میں پوتین اور ٹرمپ کی ملاقات میں شام میں ایران کی موجودگی پر بھی گفتگو نہیں ہوگی بلکہ جنگ کے بعد کے حالات پر گفتگو ہوگی اور یہ اسرائیل کے لئے بڑی شکست ہے، نتن یاہو کی بوکھلاہٹ کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔

بشکریہ

رای الیوم

عبد الباری عطوان

 

ٹیگس