ویسکانسن میں بدستور نسل پرستی کی آگ روشن
امریکی ریاست ویسکانسن میں پولیس کے امتیازی سلوک اور وحشیانہ اقدامات کے خلاف آج کل بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکہ کی ویسکانسن ریاست کے شہر کینوشا میں اتوار کو پولیس کے ہاتھوں جیکب بلیک نامی انتیس سالہ سیاہ فام نوجوان کو اس کے بیوی بچوں کے سامنے وحشیانہ انداز میں فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
جیکب بلیک کے گھر والوں نے اعلان کیا ہے کہ اس کے بیٹے کی کمر کے حصے پر سات بار گولی ماری گئی جس کی بنا پر جیکب مفلوج ہو گیا ہے۔ شہر کنوشا کی پولیس کے اس وحشیانہ اقدام کے بعد ریاست ویسکانسن میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق آج کل ویسکانسن میں ہونے والے مظاہروں میں کم سے کم تیس افراد ہلاک اور دسیوں زخمی ہو گئے۔ریاست ویسکانسن کے گورنر ٹونی اورس نے ریاست میں نسل پرستی مخالف مظاہروں میں تیزی آنے کے بعد ہنگامی حالت کا اعلان کر دیا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی بدھ کو اپنے پر تشدد اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ریاست ویسکانسن میں مظاہرین کو کچلنے کے لئے نیشنل گارڈ کے دستوں کو تعینات کیا جائے گا۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد وائٹ ہاؤس نے نیشنل گارڈ کے تقریبا ایک ہزار اہلکار کو مظاہرین کی سرکوبی کے لئے شہر کینوشا کے لئے روانہ کر دیا ہے۔ نیشنل گاڑد کے ان اہلکاروں کے ساتھ فیڈرل پولیس کے دو سو سے زائد اہلکاروں کو بھی وہاں بھیجا گیا ہے۔
امریکی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق اس وقت شہر کینوشا مظاہرین اور نیشنل گارڈ کے جوانوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر شہر کینوشا میں ہونے والے حالیہ احتجاجی مظاہروں کی ویڈیو کلپ سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر میں پوری طرح آگ لگی ہوئی ہے۔ سیکڑوں گاڑیاں، دکانیں اور عمارتیں مظاہرین کے غم و غصے کی آگ میں جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔
امریکہ کی دوسری ریاستوں میں بھی نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکہ میں گزشتہ ہفتوں کے دوران ہونے والے مظاہروں میں ہزاروں افراد زخمی اور گرفتار ہو چکے ہیں۔