آس پاس
سامعین ہم پروگرام آس پاس کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ کلب عباس زیدی و مریم زہرا کا سلام قبول کیجیئے۔ امید ہے آج کا پروگرام بھی آپ کو پسند آئے گا۔ پروگرام کے آخر تک ہمارے ساتھ رہیے گا۔
سامعین آج کے پروگرام میں میں مشرق وسطی میں گزشتہ ہفتے پیش آنے والے اہم واقعات پر نظر ڈالیں گے۔ شروع میں ہم فلسطین کے حالات کا جائزہ لیں گے۔ واضح رہے کہ صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور تسلط پسندی کے خلاف عالمی سطح پر ظاہر کئے جانے والے رد عمل کی وجہ سے فلسطین کے، گزشتہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے واقعات کو میڈیا میں بہت کم کوریج دی گئی۔فلسطین کے بعد ہم بحرین، عراق اور یمن سمیت خطے میں رونما ہونے والے دوسرے واقعات کا جائزہ لیں گے۔ بیت المقدس پر قبضے کے مقصد سے انجام پانے والے صیہونی حکومت کے اقدامات کے خلاف گزشتہ ہفتے بھی عالمی رد عمل کا سلسلہ جاری رہا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے فلسطینی سرزمین میں اسرائیل کے ہاتھوں تاریخی اور مذہبی آثار و مقامات کے منہدم کئے جانے میں مذمت میں ایک اور مسودۂ قرارداد کے بارے میں ووٹنگ کرائی۔
گزشتہ بدھ کے دن اس مسودۂ قرار داد کے بارے میں ووٹنگ ہوئی اس سے ایک ہفتہ قبل یونیسکو نے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ یہودیوں کا مقبوضہ بیت المقدس کے مقدس اسلامی مقامات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس مسودۂ قرارداد میں آیا ہے کہ صیہونی حکومت مذہبی مقامات کو نقصان پہنچا رہی ہے اور وہ مذہبی آزادی کو محدود کر رہی ہے۔ یونیسکو کی سابقہ قرارداد کی طرح نئےمسودۂ قرارداد میں ایک بار پھر مقبوضہ بیت المقدس میں موجود تمام مقامات کو صرف مسلمانوں سے متعلق قرار دیا گیا ہے۔ یونیسکو نے ایسی حالت میں اس قرارداد کو منظور کیا ہے کہ جب صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے اتوار کے دن کہا کہ وہ مسجد الاقصی کی مٹی اٹھانے میں خود بھی شرکت کریں گے۔ انہوں نے تمام اسرائیلی حکام سے کہا کہ رواں ہفتے مسجد الاقصی کی مٹی اٹھانے کے عمل میں ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔
اقوام متحدہ نے مسجد الاقصی کے نیچے کھدائی کےعمل میں شرکت پر مبنی صیہونی وزیر اعظم کے نسل پرستانہ بیانات کی مذمت کی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے تاکید کی ہےکہ اقوام متحدہ نے ہمیشہ مقدس مقامات کے بارے میں شفاف موقف اختیار کیا ہے اور یہ ادارہ اس بات پر تاکید کرتا ہےکہ مقدس مقامات کا تعلق مسلمانوں سے ہے اور اس صورتحال کا تحفظ کیا جانا چاہئے اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں لائی جانی چاہئے۔
عرب لیگ نے بھی مسجد الاقصی کے نیچے کھدائی پر مبنی صیہونی وزیر اعظم کے فیصلے کی مذمت کی اور خبردار کیا کہ اس سے مسجد الاقصی کے منہدم ہونے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔
صیہونی حکومت ایسی حالت میں اشتعال انگیز اور مسجد الاقصی کے خلاف اقدامات انجام دے رہی ہے کہ جب یونیسکو نے تاکید کی ہےکہ اس مقام کا تعلق مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ قدس کی تاریخ میں تحریف کرنا، اس کے یہودیوں سے متعلق ہونے کے بارے میں خود سے تاریخ گھڑنا اور کھدائی کے ذریعے مسجد الاقصی کے انہدام کا خطرہ پیدا کرنا اسرائیلی حکام کا پرانا منصوبہ ہے۔
اسرائیلی کابینہ نے مقبوضہ فلسطینی سرزمینوں میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اور جغرافیائی نقشے کو تبدیل کرنے کو ہمیشہ اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھا۔ اس پالیسی پر بھی قدس اور فلسطین کے تاریخی آثار منہدم کرنے، جعلی تاریخ گھڑنے، فلسطینی سرزمینوں میں صیہونی بستیوں کی تعمیر اور ان میں صیہونیوں بسانے کے ذریعے فلسطینیوں کی آبادی میں کمی لانے اور فلسطینیوں کو ان کے وطن سے نکال باہر کرنے کے ذریعے عملی جامہ پہنایا گیا۔
صیہونی حکومت نے سنہ انیس سو ترسٹھ سے انیس سو سڑسٹھ تک قدس کے بارے میں اپنی جعلی تاریخ کے اثبات کے لئے دنیا کے مختلف ممالک کے ماہرین آثار قدیمہ کو اکٹھا کیا۔ لیکن اپنی کوششوں کے نتیجہ خیز ثابت نہ ہونے کی وجہ سے فوج کو مقبوضہ بیت المقدس میں کھدائی کے کام پر مامور کر دیا۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب انیس سو اڑتالیس اور انیس سو سڑسٹھ تک کے برسوں کے دوران بھی صیہونی حکومت نے پارلیمنٹ کینیسٹ (Knesset) ، عجائب گھر اور وزیر اعظم ہاؤس کو تل ابیب سے مغربی بیت المقدس میں منتقل کر دیا۔
صیہونی حکومت کے گستاخانہ اقدامات صرف بیت المقدس میں اس حکومت کے تباہ کن اور توسیع پسندانہ اقدامات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صیہونی حکومت نے بیت المقدس کے اسلامی مقامات خصوصی بیت المقدس کی بےحرمتی کے مقصد سے بھی اقدامات انجام دیئے ہیں اور حالیہ مہینوں کے دوران اس بے حرمتی میں اضافہ ہوا ہے۔
آل خلیفہ کی حکومت نے بحرینی عوام کے خلاف اپنے تشدد آمیز اقدامات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اس ملک کے مزید بعض شہریوں کی شہریت ختم کر دی ہے۔ بحرین کی اپیل کورٹ نے جمعرات کے دن سلامتی کے خلاف اقدامات انجام دینے کے بے بنیاد الزام کے ساتھ بحرین کے بائیس شہریوں کی شہریت ختم کرنے کی سزا کی توثیق کی۔ بحرین کی عدالت نے ان میں سے انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کو جرمانہ ادا کرنے اور دس سال قید کی سزا بھی سنائی ہے۔
بحرین کی حکومت نے جون سنہ دو ہزار سولہ کو ممتاز شیعہ عالم دین آیۃ اللہ شیخ عیسی قاسم کی شہریت منسوخ کردی جس کے خلاف بحرین اور دنیا بھر کے اہل تشیع نے شدید رد عمل ظاہر کیا۔ فروری سنہ دو ہزار گیارہ سے بحرین میں آل خلیفہ حکومت کے خلاف پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
بحرین کے عوام اپنے ملک میں سیاسی اصلاحات، آزادی، عدل و انصاف کی برقراری، امتیازی سلوک کے خاتمے اور منتخب عوامی حکومت کی تشکیل کے خواہاں ہیں۔ لیکن آل خلیفہ حکومت ہمیشہ ان کے خلاف تشدد سے کام لیتی ہے۔
آل خلیفہ کے تشدد میں پیدا ہونے والی شدت، سیاسی شخصیات اور کارکنوں کو جیلوں میں ڈالنے اور سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے تک محدود نہیں ہے بلکہ آل خلیفہ حکومت نے بہت سی سیاسی شخصیات کی شہریت سلب کر کے بحرین میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی جانب قدم اٹھایا ہے۔
بحرین کی حکومت عوام کی انقلابی تحریک کو کچلنے، اپنے مخالفین کو سیاسی اور سماجی میدانوں سے باہر نکالنے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی سرگرمیوں کو کم کرنے کے لئے ہرحربہ اور ہتکھنڈہ استعمال کر رہی ہے۔
آل خلیفہ کی حکومت مختلف حربوں کے ذریعے سیاسی شخصیات اور علما کو بحرین سے نکالنے کے درپے ہے ۔ یہ حکومت سمجھتی ہے کہ وہ حالات کو اپنے کنٹرول میں لے کر بحرینی عوام کے احتجاج پر قابو پا لے گی۔ سنہ دو ہزار چودہ میں بحرین کے قانون میں تبدیلی کی گئی تھی اور اس تبدیلی کی رو سے بحرین کی بادشاہت کے قومی مفادات کے خلاف سرگرمی کا مظاہرہ کرنے والے ہر فرد کی شہریت ختم کر دی جاتی ہے۔
بحرین کی حکومت عوامی احتجاج پر قابو پانے کے علاوہ اپنے مخالفین کو ملک کے سیاسی اور سماجی دھارے سے نکال باہر کرنا چاہتی ہے۔
یمن کے واقعات بھی گزشتہ ہفتے کے دوران خطے کی خبروں میں سرفہرست تھے۔ یمن کے مختلف رہائشی علاقوں پر سعودی عرب کی بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب یمن کے مختلف علاقوں پر سعودی اتحاد کے حملوں میں شدت آنے کے بعد اقوام متحدہ نے اس ملک میں اشیائے خورد و نوش کی قلت اور انسانی المیہ رونما ہونے کے بارے میں خبردار کیا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر مہند ہادی نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ یمن کے مختلف علاقوں خصوصا مواصلاتی راستوں، بندرگاہوں، اشیائے خورد و نوش کے گوداموں پر حملوں کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے اس ملک میں بھوک کا بحران اور غذا کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے اور کئی ملین افراد انسانی المئے کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے نمائندے اسماعیل ولد الشیخ الاحمد نے بھی یمن پر سعودی اتحاد کے حملوں اور اس ملک کے محاصرے کے نتیجے میں انسانی المئے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ادارہ یمن کا زمینی ، فضائی اور سمندری محاصرہ ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ اس ملک کے زخمیوں کو یمن سے باہر لے جانے کے لئے بھی کوشاں ہے۔ یمن کے عوام کی مشکلات کے حل سے متعلق یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے کے بیانات کے کچھ دیر بعد یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سربراہ عبدالملک الحوثی نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اعلان کے برخلاف ابھی تک اس ادارے نے یمن کے عوام کی مشکلات کے حل کے لئے کوئی بھی سنجیدہ اقدام نہیں کیا ہے۔ یمن کی عوامی تحریک انصاراللہ کے سربراہ نے بدھ کے دن صنعا میں کہا کہ سعودی عرب یمنی شہریوں کا ان کے گھروں ، مساجد اور تعلیمی مراکز میں قتل عام کر رہا ہے اور اسے اپنے ان مظالم کی کوئی پرواہ بھی نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
بدھ کے دن یمن کے سیکڑوں اسٹوڈنٹس نے دارالحکومت صنعا میں جلوس نکال کر سعودی لڑاکا طیاروں کے ذریعے یمن کے عام شہریوں کے قتل عام اور امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کی حمایت کی مذمت کی اور عالمی برادری اور بین الاقوامی تنظیموں کی خاموشی کو یمن میں سعودی عرب کے مظالم میں شدت کا سبب قرار دیا۔
یمن کی پارلیمنٹ کے اراکین نے بھی ایک بیان میں اعلان کیا کہ جنگ کو بند کرنے اور یمن کے خاتمے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے قرارداد کا منظورکیا جانا ضروری ہے اور دوسرے طریقوں سے اس ملک کا بحران حل نہیں ہوسکتا ہے۔ یمن کے اراکین پارلیمنٹ نے یمن میں آل سعود کے مظالم کا جائزہ لینے کے لئے ایک غیر جانبدار بین الاقوامی کمیٹی تشکیل دینے کا بھی مطالبہ کیا۔
یمن کی اعلی سیاسی کونسل کے سربراہ نے یمن کے امور میں اقوام متحدہ کے نمائندے اسماعیل ولد الشیخ کی کارکردگی کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔
صالح علی الصماد نے کہا کہ اسماعیل ولد الشیخ صرف سعودی عرب کے پیغام لے کر آتے ہیں اور وہ کوئی نیا آئیڈیا یا تجویز پیش نہیں کر سکتے ہیں۔
عراق کے عوام نے ملک کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کاعزم مصمم کیا اور اس کے لئے موصل کی آزادی کا آپریشن شروع کیا گیا ۔ جس کی وجہ سے اس ملک کی خبریں سرفہرست رہیں۔ عراق کی فوج نے عوامی رضاکار فورس اور کرد پیشمرگہ ملیشیاء کی مدد کے ساتھ موصل کی آزادی کا آپریشن شروع ہونے کے بعد ترانوے دیہات اور قصبے دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے آزاد کرا لئے ہیں۔ عراق کی وزارت دفاع نے جمعرات کے دن اعلان کیا کہ عراق کی مشترکہ سیکورٹی فورسز نے موصل کی آزادی سے متعلق آپریشن کے دوران دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کو شدید جانی نقصان پہنچایا ہے۔ انہوں نے سات سو بہتّر دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
عراق کی سیکورٹی فورسز نے صوبہ نینوا میں دہشت گرد گروہ داعش کی تین سرنگیں اور چالیس جنگی مراکز کا پتہ لگا کر ان کو منہدم کر دیا ہے۔
موصل کی آزادی کا آپریشن سترہ اکتوبر سے عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کے حکم سے شروع ہوا۔ اس آپریشن میں فوج، عوامی رضاکار فورس اور کرد پیشمرگہ ملیشیاء حصہ لے رہی ہے۔
عراق کے صدر نے موصل کے جنگی علاقے کے دورے کے موقع پردہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے موصل شہر کی مکمل آزادی تک آپریشن جاری رکھنے پر تاکید کی۔
فواد معصوم نے جمعرات کی سہ پہر کو پہلی مرتبہ موصل میں جنگی علاقے کا دورہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ موصل آپریشن عراق سے دہشت گرد گروہ داعش کے عناصر کو نکالنے کے لئے ایک بہترین منصوبہ ہے۔
عراقی صدر کے جنگی علاقوں کے دورے کے موقع پر موصل آپریشن کے کمانڈروں نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی رات شمالی سیکٹر پر آپریشن کے پہلے مرحلے کے اختتام کا اعلان کیا اور دریں اثناء مزید تازہ دم فوجی جنگی علاقے میں روانہ کر دیئے گئے۔
عراقی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے ملک کے کسی بھی دوسرے علاقے میں دہشت گرد گروہ داعش کی ممکنہ موجودگی کی روک تھام کے لئے اس گروہ کی مکمل نابودی پر تاکید کی ہے۔ سلیم الجبوری نے نینوا آپریشن کے کمانڈروں سے ملاقات کے دوران کہا کہ موصل کی آزادی کے تاریخی، حساس اور خصوصی آپریشن میں، کہ جس کی عراق کے تمام عوام حمایت کرتے ہیں، دہشت گرد گروہ داعش کی مکمل نابودی بہت ضروری ہے۔
الجبوری نے ملک میں اتحاد کے احیا اور عراقی عوام کے مطالبے کو پورا کرنے کے لئے موصل آپریشن میں شرکت کرنے والے سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کی شجاعت اور اتحاد کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس آپریشن میں تمام گروہوں کی شرکت دہشت گردوں پر جلد از جلد فتح حاصل کرنے پر منتج ہوگی۔
دہشت گرد گروہ داعش کے قبضے سے موصل کی آزادی کا آپریشن گزشتہ پیر کے دن سترہ اکتوبر کو شروع ہوا۔ صوبہ نینوا کے صدر مقام موصل پر دہشت گرد گروہ داعش نے جون سنہ دو ہزار چودہ سے قبضہ کر رکھا ہے۔
شمالی عراق میں واقع صوبہ نینوا کے گورنر نے کہا ہے کہ عراقی فوجی موصل شہر میں داخل ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔
دریں اثناء عراق کے ہزاروں عوامی رضاکار بھی الحضر سے تلعفر تک کے علاقے کو آزاد کرانے کے مقصد سے موصل کے مغربی سیکٹر پر پہنچ گئے ہیں۔ عراق کی بدر تنظیم کے سیکریٹری جنرل ہادی العامری نے بھی کہا ہے کہ موصل کی آزادی کا آپریشن طویل ہوگا ۔ اگرچہ عراقی فوجیوں نے موصل آپریشن شروع ہونے کے بعد بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن یہ آپریشن شہر کے اندر موجود عام شہریوں کی حمایت کی وجہ سے طویل ہوسکتا ہے۔