سانحہ منیٰ - پہلا حصہ
سانحہ منیٰ آٹھ حصوں پر مشتمل پروگرام کا عنوان ہے جس میں دو ہزار پندرہ کے حاجیوں کے ساتھ پیش آنے والے دردناک سانحے کا جائزہ لیا گیا ہے -
اسلام نے آخری اور مکمل الہی و آسمانی دین کی حیثیت سے انسان کے لئے اللہ تعالی سے نزدیک کرنے اور اسے معنوی کمال عطا کرنے کے لئے روح کو جلا دینے والی گوناگوں عبادتیں معین کی ہیں- یہ عبادتیں اپنی خاص خصوصیات و آداب کی حامل ہیں اور عبادات کے اثر اور اس کی کشش میں چار چاند لگاتی ہیں- اسلامی عبادات میں حج کے عظیم الشان فریضہ کا اپنا خاص مقام و مرتبہ ہے- سورہ آل عمران کی آیت نمبر ستانوے میں اللہ تعالی نے حج کے وجوب کو یوں بیان فرمایا ہے: اس میں کھلی ہوئی نشانیاں مقام ابراہیم علیھ السّلام ہے اور جو اس میں داخل ہوجائے گا وہ محفوظ ہوجائے گا اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا واجب ہے اگر اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے
بنا بریں جس کے اندر بھی حج پر جانے کی صلاحیت و توانائی پائی جاتی ہے اس پر واجب ہے کہ اپنی عمر میں کم سے کم ایک بار اس فریضے کو ادا کرے اور اپنی تربیت و تزکیہ نفس کے لے اہم قدم بڑھائے کیونکہ بہت سے ایسے افراد گذرے ہیں جن کے اندر حج کے معنوی و روحانی سفرکے بعد عظیم تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان کی زندگی کے راستے تبدیل ہوگئے ہیں-
تاہم حج کی کچھ دلچسپ خصوصیات ہیں جن میں پہلی خصوصیت اس کا اجتماعی طور پر منعقد ہونا ہے - مناسک حج انجام دینے کے لئے دنیا کے مختلف علاقوں سے لاکھوں افراد مکہ مکرمہ پہنچتے ہیں تاکہ یکساں طور پر ایک جیسے مناسک و اعمال انجام دیں - حج کی دوسری خصوصیت اس کا مسجد الحرام ، عرفات ، مشعر و منیٰ جیسے مقدس اور ایک مقام پر منعقد ہونا ہے- اس کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ مناسک حج ذی الحجہ کے ایک معینہ زمانے میں منعقد ہوتے ہیں - اس طرح اللہ تعالی نے چاہا ہے کہ مختلف قوموں ، قبیلوں، اور ممالک کے نمائندے ایک معینہ زمانے میں مقدس شہر مکہ اور اس کے اطراف میں واقع مقدس مقامات پر اکٹھا ہو کر اجتماعی شکل میں عبادت انجام دیں-
جیسا کہ سورہ آل عمران کی ستانویں آیت میں ارشاد ہوا ہے اور مختف حدیثیں بھی موجود ہیں کہ حج سب پر واجب نہیں ہے بلکہ یہ عبادت صرف ان لوگوں کو بجا لانی ہے جو اس کو انجام دینے کی استطاعت اور طاقت و توانائی رکھتے ہیں - علماء وفقہا نے حج ادا کرنے کی استطاعت کے سلسلے میں چند شرطیں بیان کی ہیں - حج بجا لانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو شخص حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہو وہ صحت مند ہو البتہ اگر وہ پوری طرح صحت مند نہ ہو تو کسی کو اپنی طرف سے حج کے لئے بھیج سکتا ہے - دوسری شرط مالی توانائی کا ہونا ہے - جو شخص حج کی معنوی عبادت انجام دینے کے لئے جانا چاہتا ہے اس میں حج کے زمانے میں اپنی اور اپنے خاندان کے اخراجات پورے کرنے کی طاقت و توانائی موجود ہو لیکن ایک اہم شرط جو حج انجام دینے کا ارادہ رکھنے والے کی استطاعت کے سلسلے میں عائد کی گئی ہے وہ حفاظت و سیکورٹی ہے یعنی یہ کہ خانہ کعبہ کے زائر کو لازمی سیکورٹی و تحفظ حاصل ہو-
ماضی میں امن و سلامتی سے مراد زیادہ تر کعبے کے مسافر کے راستے میں خطرات کا نہ ہونا تھا کیونکہ ماضی میں چارپایوں کے ذریعے سفر انجام پاتا تھا اور بعض اوقات چور ڈاکو خانہ کعبہ کے زائرین کی جان و مال کے لئے خطرہ بن جاتے تھے لیکن اس دور میں اس طرح کا خطرہ نہیں ہے اور حاجیوں کی سیکورٹی و تحفظ سے مراد مکے و مدینے میں ان کی جان و مال کی حفاظت ہے- اگرچہ اسلام میں نماز جمعہ و جماعت جیسی اجتماعی عبادتیں موجود ہیں تاہم حج ، اسلام کی سب سے عظیم اجتماعی عبادت شمار ہوتا ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک وقت اور جگہ پر ایک ساتھ لاکھوں زائرین اسی وقت حج کی بابرکت اور معنوی عبادت انجام دے سکتے ہیں اور اس سے استفادہ کرسکتے ہیں جب انھیں ان کی جان کے سلسلے میں تحفظ حاصل ہو اور اس طرح کے تحفظ کی فراہمی کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو حجاج کے میزبان ہیں یعنی سعودی حکومت پر کہ جو خود کو مسجد الحرام اور مسجد النبی (ص) کا متولی سمجھتی ہے اور آل سعود پر جو خود کو حرمین شریفین کا خادم کہتی ہے-
لیکن آل سعود ، گذشتہ برسوں میں سرزمین حجاز پر اپنے قبضے کے دوران ، حاجیوں کو اطمینان بخش تحفظ فراہم نہیں کرسکی ہے- سعودیوں نے اپنے پیٹرو ڈالر سے مکہ و مدینہ کے تاریخی اسلامی مقامات اور عمارتوں کو مسمار کرکے حرمین شریفین کی توسیع تو کردی ہے لیکن ابھی تک حاجیوں اورزائرین کو سکون اور تحفظ فراہم نہیں کر سکے ہیں جبکہ سائنس و ٹیکنالوجی خاص طور پر مواصلات کے میدان میں پیشرفت کے ذریعے انتظامیہ اور سیکورٹی اہلکار جدید ساز و سامان اور نئی ٹیکنالوجی اور روش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حادثات کو روک سکتے ہیں یا نقصانات کو کم سے کم کرسکتے ہیں- لیکن گذشتہ برسوں میں حج کے دوران پیش آنے والے متعدد دلخراش حادثات سے پتہ چلتا ہے کہ آل سعود ، حجاج کو سیکورٹی فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی -
سامعین آئندہ پروگرام میں ہم اس طرح کے کچھ واقعات کی جھلکیاں پیش کریں گے تاکہ آپ بہتر فیصلہ کر سکیں-