سانحہ منیٰ - ساتواں حصہ
محترم سامعین کی خدمت میں پروگرام "سانحۂ منی" کی مناسبت سے خصوصی پروگرام لےکر حاضر ہیں ۔
سامعین گزشتہ پروگراموں میں ہم نے منی کے سانحہ کی تفصیلات ایک عینی شاہد "حاجی محمد" کی زبانی آپ کی خدمت میں پیش کی تھیں۔ سرزمین منی کاسانحہ اور اسی طرح حج کے دوران مسجدالحرام میں کرین گرنے اور اس قسم کے رونماہونے والے دوسرے المناک حادثات اس اہم اسلامی فریضہ کی ادائیگی میں حاجیوں کے غیر محفوظ ہونے کے غمازہیں۔
حج کے دوران اس قسم کے رونما ہونے والے حادثات اس امر کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ آل سعود جو اپنے آپ کومکہ اورمدینہ میں حرمین شریفین کا خادم سمجھتی ہے ، ان مقامات مقدسہ کے بندوبست اورزائرین بیت اللہ اور حاجیوں کو امن وسلامتی کی فراہمی پر قادر نہیں ہے۔ 84سال سے آل سعود انگریزوں کی مدد سے سرزمین حجاز پرحکمراں ہے اور یہ نااہل خاندان اس طویل عرصہ میں حجاج کرام کی سیکورٹی اور سلامتی کے لئے کوئی موثر اور ٹھوس اقدام عمل میں نہیں لاسکاہے۔ گزشتہ سال( 2015) میں حج کے دوران منی میں رونما ہونے والے المناک سانحہ نے یہ ثابت کردیاکہ بحران کو کنٹرول کرنے کے لئے پیشرفتہ مواصلاتی ٹیکنالوجی نیزجدید طور طریقوں اور وسائل وامکانات کے باوجود سعودی حکومت، حج کے انتظامات پر قادر نہیں ہے اور یہ ایسی حالت میں ہے کہ اس حکومت کی عائد کردہ پابندیوں اور شرائط کی وجہ سے گزشتہ سال حاجیوں کی تعداد گھٹ کر تقریبانصف تک پہنچ گئی تھی۔
گویندہ
گزشتہ سال رونما ہونے والے منی کے المناک حادثہ کے بارے میں متعدد سوالات اٹھائے اور شکوک وشبہات پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن سعودی حکومت کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈوں اور پیسہ دےکر زبانیں بند رکھنے کی زبردست مہم اور کوشش جاری ہے۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ برسوں کا یہ طویل عرصہ گزرجانے اور حج کے انتظامات پر خطیر رقم خرچ کرنے پر مبنی سعودیوں کے دعوے کے باوجود منی میں متعدد حادثات اور المیوں کے رونما ہونے کے بعد بھی سعودی حکومت نے حاجیوں کی پرسکون رفت وآمد کے لئے راستے کیوں نہیں تعمیر کئے ؟ گزشتہ سال (2015) میں حج کے دوران رونماہونے والے سانحہ ،( جس میں7000سے زیادہ حجاج کرام شہید ہوگئے) کے بارے میں بھی بہت سے شکوک وابہامات پائے جاتے ہیں جس وقت سعودی سیکورٹی فورسز نے ایرانی حجاج کو سڑک 204 پر بھیجا تو اس راستہ کے تنگ ہونے کےباعث حاجیوں کا زبردست اژدحام ہوگیا تھا اورسعودی سیکورٹی اہلکار لگے ہوئے خفبہ کیمروں کے ذریعہ اس منظر کو دیکھ رہےتھے اس کے باوجود انھوں نے ایک ذیلی راستہ سے جانے والے حاجیوں کو کیوں اسی پرہجوم سڑک پر بھیج دیا ؟
دوسرا سوال یہ اٹھتاہے کہ وہ ذیلی راستہ جو سڑک 204کی بھیڑ اور شدید ہجوم کو کم کرنے کا باعث بن سکتاتھا اس کو سعودی پولیس نے کیوں بند کررکھا تھا" جبکہ گزشتہ برسوں میں ایسے بحرانی مواقع پر یہ ذیلی راستہ کھول دیا جاتاتھا۔ اگر یہ ذیلی راستہ کھلا ہوتا تو اس قسم کا سانحہ رونما نہ ہوتا یا کم سے کم جانی نقصان بہت کم ہوتا۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سڑک 204 جس پردرد ناک سانحہ پیش آیا اس کے آخری سرے کے بند ہونے کی وجہ کیاتھی؟ ظاہر ہے کہ اگر یہ راستہ ہمیشہ کی طرح کھلا رہتا تو "سانحۂ منی " رونما نہ ہوتا۔اس ذیلی راستہ کو بند کرنے کی کوئی عقلی اور منطقی توجیہ پیش نہیں کی جاسکتی لیکن یہ کہ اس شاہراہ کی حدود میں سعودی وزیر دفاع شاہزادہ "محمد بن سلمان" کی موجودگی کی خبروں کو صحیح تسلیم کیاجائے۔ موصولہ خبریں اس امر کی نشان دہی کرتی ہیں کہ شاہزادہ " محمد بن سلمان" بڑی تعداد میں اپنے محافظین کے ہمراہ شیطان کو کنکریاں مارنے آیاتھا اور اسی لئے سعودی پولیس نے سڑک 204 کو بند اور رمی جمرات کی جگہ کو اس کےلئے خالی کردیا تھا
لیکن سانحۂ منی کے وقت اور اس المیہ کے رونماہونے کے بعد سعودی حکومت کی کارکردگی بہت ہی مشکوک تھی کہ اس کے بارےمیں متعدد سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ جس وقت شاہراہ 204پرحاجیوں کی بھیڑ میں شدید اضافہ ہوگیا تھا اور سخت گرمی ، تیز دھوپ اورپیاس کی شدّت سےجاں بلب تھے اس وقت ہیلی کاپٹر یا کسی اور ذریعہ سے اگران پر پانی چھڑک دیاجاتا تو اس طریقہ سے بہت سے افراد کی جان بچائی جاسکتی تھی لیکن سعودیوں نے یہ معمولی سا کام بھی انجام دینے سےگریز کیا ۔ کیا حج کا انتظام چلانے والے سعودی حکمراں اس مسئلہ سے آگاہ نہ تھے؟ جیسے ہی دوسرے ممالک کی امدادی ٹیمیں اس المناک سانحہ سے باخبر ہوئیں فورا مدد کے لئے دوڑ پڑیں لیکن سعودی سیکورٹی فورسز نے انھیں وہاں جانے کی اجازت نہیں دی ۔ امدادی کارکنوں نے بے حد اصرار کے بعد انھیں راضی کرلیا اور جاں بلب زائرین کی مدد کے لئے پہنچ گئے تاہم کچھ دیر بعد ان امدادی کارکنوں کو بھی جائے حادثہ سے باہر نکا ل دیا گیا حالانکہ یہ تجربہ کار امدادی کارکن امداد رسانی کے عمل میں بہت ہی کارآمد ثابت ہوسکتے تھے۔
سعودی امداد رسانی کے دو مراکز شاہراہ 204 کے قریب ہی موجود تھے ۔ اسی طرح امداد رسانی کے دوسرے مراکز بھی منی کے تمام علاقوں میں موجود تھے ۔
جب بھی کہیں انسانی المیے رونما ہوتے ہیں تو سب سے پہلے وہاں حادثہ سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے پہنچنے والی امدادی ٹیم کے افراد ہوتے ہیں لیکن سعودی امدادی کارکن، دردناک سانحہ رونما ہونےکے دوگھنٹے سے زیادہ گزرنے اور حتی دوسرے ممالک کے امدادی گروہوں کے جائے حادثہ پر لوگوں کی مدد کے لئے پہنچنے کے بعد پہنچے تھے۔ اگر چہ متاثرہ افراد کی مدد کے لئے اتنی دیر بعد سعودی امدادی کارکنوں کے جائے حادثہ پر پہنچنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود سعودی اہکاروں کو حکام کی جانب سے جائے حادثہ کی صفائی کا حکم دےدیاگیا۔ چنانچہ جو لوگ زمین پر گرے پڑے تھے ان میں زندہ اور مردہ دونوں ہی تھے سب کو بلڈوزر کے ذریعہ دوسری جگہ منتقل کردیاگیا۔ اس المناک سانحہ میں زخمی ہونے والوں اور بیماروں کے علاج معالجہ میں سعودیوں کی کوتاہی اورغفلت وسہل انگاری کے بارے میں متعدد خبریں موصول ہوئی ہیں۔
منی کا دردناک سانحہ رونما ہونے کے بعد ایک مشکل مسئلہ یہ تھا کہ سعودی حکومت مختلف بہانہ جوئی کے ذریعہ شہدائے منی کے جنازوں کی شناخت اور انھیں ان کے ملک منتقل کئے جانے کےلئے دوسرے ممالک کی حج کمیٹیوں کے ساتھ کوئی تعاون کرنے پر تیار نہیں تھی۔ آل سعود نے سانحۂ منی کے پہلوؤں اور اس کے اسباب کی پردہ پوشی کے لئے جہاں تک ممکن ہوسکا شہدائے منی کے جنازوں کو سعودی عرب میں اور زیادہ تر اجتماعی قبروں میں دفن کردیا۔ واضح رہے کہ سعودی حکومت نے ہمیشہ کی طرح پیسے دےکر ان حکومتوں کے منھ بند کردئے جن کے باشندے حج کے دوران رونما ہونے والے سانحہ میں مارے گئے تھے۔
اسلامی جمہوریۂ ایران ایسا واحد ملک ہے جس نے کسی کی ہمراہی کےبغیر اپنے حجاّج کے حقوق کا دفاع کیا اور سانحۂ منی میں شہید ہونے والے اپنے حاجیوں کے جنازوں کی شناخت کی اورمعدودے چند کے علاوہ تمام جنازےسعودی عرب سے اپنے ملک میں منتقل کروالئے۔ تھران، منی کے المناک حادثہ کے ذمہ داروں کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ دائرکئےجانے میں کوشاں ہے ۔ اسلامی جمہوریۂ ایران آل سعود سے اس بات کا خواہاں ہے کہ اپنی غلط حرکتوں کی معافی مانگے اور سانحۂ منی کے شہدا کے لواحقین کو تاوان اداکرے ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکام نے اس سال ایرانی زائرین کو حج بیت اللہ سے محروم کردیا ہے۔
سامعین سانحۂ منی سے متعلق تمام مسائل نیز اس بارےمیں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور سعودی حکام کےدوسرے غلط ااقدامات، حجّاج بیت اللہ کو تحفظ فراہم کرنے میں آشکارا طور پر آل سعود کی نااہلی وناتوانی کے غماز ہیں۔