سانحہ منیٰ - چھٹا حصہ
محترم سامعین کی خدمت میں منی میں گزشتہ سال رونما ہونےوالے سانحہ کے حوالے سے خصوصی پروگرام لےکرحاضر ہیں ۔
سامعین ایرانی زائر محمد جو گذشتہ سال حج کےموقع پر منی میں تھے اس سانحہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے انتہائی حساس مقام پر تھوڑی دیر کےلئے رگ گئے ۔ وہ اس دردناک اور حساس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ حجاج کرام شدید اژدحام،انتہائی گرمی اور ایک دوسرے پرگرنے اورکچل جانے کی وجہ سے بےہوش اور بعض جابحق ہورہے تھے بعض تھوڑی دیر کے لئے ہوش میں آئے اور اسکے بعد ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ میری بھی حالت اسی طرح تھی میرے بدن میں ذرہ برابرطاقت وتوانائی باقی نہیں رہی تھی اور میں اپنے آپ کو موت کے لئے تیارکرنے کے لئے کلمہ شہادت پڑھ رہا تھا۔میری انکھوں کے سامنے میرے بیوی بچوں اور والدین کے چہرے آرہے تھے اور یہ دعا کررہاتھا کہ امید ہے یہ سب مجھے معاف کردیں گے۔جب اپنے حج کے نامکمل ہونے کی جانب خیال جاتا تو اپنی اس خواہش کے پورے نہ ہونے پر شدید افسوس ہونے لگتا۔مجھے صرف یہ امید تھی کہ خدا میرے اس نامکمل حج کو ضرور قبول کرے گا اور اپنی عدالت میں منی کے واقعے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے گا۔
اس ناامیدی کے دوران میں نے جند لمحوں کے لئے اپنی آنگھیں کھولیں اس وقت میں نے دیکھا کہ دور سے کچھ حاجی میری طرف آرہے ہیں ۔امید کی ایک کرن میرے وجود میں پیدا ہوئی۔آنے والے حاجیوں نے بڑی تیزی سے زندہ حاجیوں کو اس ہجوم سے باہر نکالا۔میں نے بھی اپنا ہاتھ بلند کیا اور ایک ہاتھ جسے میں خدا کا ہاتھ ہی کہوں گا میری طرف بڑھا اس نے مجھے لاشوں کے درمیان سے نکالنے کے لئے زور سے اوپر کھینچا۔ میں نے بھی اپنا پورا زور لگا کر اپنے آپ کو لاشوں کے اس ڈھیر سے اوپر اٹھایا اور اس طرح ایک نامکن صورت حال یعنی لاشوں کے نیچے سے اوپر آنے میں کامیاب ہوا۔ ایک لمبا سانس لیکر پہلا کام یہ کیا کہ جس حاجی نے مجھے باہر نکالا تھا اس کو گلے لگا کر اسکا شکریہ ادا کیا لیکن اسکے پاس وفت نہ تھا اور وہ تیزی سے دوسرے حاجیوں کو بچانے میں مصروف ہوگیا۔ میں پیاس کی شدت سےدوچار تھا، دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اتنی دیر میں ایک اور حاجی نے مجھے پانی پیش کیا اس وقت تک سعودی عرب کا کوئی رضاکار یا امدادی کارکن وہاں موجود نہیں تھا اور نہ ہی اسوقت تک کوئی ایمبولینس پہنچی تھی۔اس سخت ترین گرمی اور تپتے ریگستان کے اندر کئی لاشوں کے نیچے سے باہر آکر وہ تھوڑاسا پانی میرے لئے دنیا کی گران ترین نعمت اور زندگی کا میٹھا اور خوش گوار ترین پانی تھا۔اوراس سے ہہتر پانی میں نے اپنی زندگی میں اس سے پہلے کبھی نہیں پیا تھا۔
تھوڑی دیر میں مختلف ممالک کے رضاکار جائے حادثہ پر پہنچ گئے میں دور سے اس حادثے میں زخمی ہونے والے افراد کی لاشوں کو دیکھ رہا تھا اور میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ اس سانحہ میں حاجیوں کی ایک بڑی تعداد شہید ہوئی ،رضاکاروں اور عوام کی طرف سے زخمیوں کو بچانے کے لئے کی جانے والی کوششیں بھی میرے سامنے انجام پائی تھیں۔رضاکاروں اور عام افراد نے جس انداز سے امدادی کاروائیاں انجام دیں وہ قابل تحسین ہیں البتہ منی کے اس عظیم سانحہ کے دوگھنٹے بعد سعودی امدادی کارکن جائے حادثہ پر پہنچے۔وہ سانحہ کی جگہ سے زیادہ فاصلے پر نہ تھے اسکے باوجود انہیں آنے میں اتنی دیر کیوں لگی یہ ایک سوال ہے۔اسکے ساتھ ساتھ انکے پاس اسطرح کے حادثات سے نمٹنے کے لئے حاطرخواہ امکانات و وسائل بھی موجود نہیں تھے۔امداد رسانی کے کاموں کو زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ سعودی عرب کی سیکوریٹی فورسز کے افراد وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے وہاں موجود تمام غیر ملکی رضاکاروں کو جائے حادثہ سے دور کردیا۔اس کام کا مقصد یہ تھا کہ سعودی فورسز کے افراد ان بےچارے حاجیوں کے ساتھ دوسروں کی نظروں سے دورجومرضی ہو کرتے رہیں اور کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔
میری حالت کچہ بہتر ہوگئی تھی اور میں کاراون کے رضاکاروں کی مدد سے اپنے کارواں میں شامل ہوگیا۔ میرے ساتھی مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئےاور چند دوسرے افراد کے بارے میں مجھ سے سوال کیا۔
ہمارے کاروان کے علاوہ ایران کے دوسرے پچاس کارواں جو اس مصیبت کا شکار ہوئے ان میں کہرام مچا ہوا تھا بہت ساری عورتیں اپنے شوہروں،بھائیوں اور بیٹوں سے جدا ہوگئی تھیں اور انہیں اپنے ان عزیزوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی ۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد نئی نئی اور پریشان کن خبریں موصول ہورہی تھیں۔ سعودی حکام نے اس مقصد کے حصول کے لئے کہ صورت حال پہلے کی طرح عادی ہوجائے فورا زمین پرپڑے مردہ اور زندہ حاجیوں کو وہاں سے اکھٹا کیا اور انتہائی بےدردی سے کنٹینروں کے اندر ڈال کر وہاں سےمنتقل کردیا۔اس اقدام کی وجہ سے وہ زندہ حاجی بھی کنٹینروں کی گرمی اور لاشوں کے نیچے دب کر جاں بحق ہوگئے جنہیں طبی امداد دیکر بچایا جاسکتا تھا۔
شہید ہونے والے حاجیوں میں دو نام بڑے معروف ہیں ایک لبنان میں ایران کے سابق سفیر غضنفر رکن آبادی تھے جن سے سعودی حکام کو للہی بیراور عناد تھا جبکہ دوسری شخصیت ایران کے معروف قاری محسن حاجی حسنی تھے جن کی عرفات میں خوبصورت تلاوت آج بھی میرے کانوں میں گونج رہی تھی
اس کے بعد حج کے تمام مناسک میں اس تکلیف دہ سانحے کی غم و غصے سے بھری یادیں سایہ افگن رہیں ۔اور اس کے ساتھ ساتھ دوسرے حادثات کا بھی اندیشہ دلگیر رہا کیونکہ ایرانی حجاج کے حوالے سے سعودیوں کی نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔رہبر انقلاب اسلامی اور ایرانی حکام کی جانب سے سخت اورٹھوس موقف اختیار کئے جانے کی وجہ سے حج کے باقی ایام بخیروعافیت گزر گئے ۔ایرانی حجاج حج ابراہیمی کی خوشگوار یادوں کے بجائےانتہائی افسردہ اور غم و اندوہ کی تصویر بن کر اپنے وطن واپس لوٹے اور ان کے پاس حج کے بارے میں خوشگوار یادوں کے بجاے غم و اندو کی داستانیں تھیں۔