Nov ۱۱, ۲۰۱۶ ۲۱:۱۸ Asia/Tehran
  • مقالہ- سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا چہلم

لبیک یا حسین علیہ السلام

بسمہ تعالیٰ

چہلم جسے عربی زبان میں اربعین بھی کہا جاتا ہے یہ قدیم زمانہ سے شیعوں کے درمیان رائج ایک رسم ہے۔اب چاہے ہر سال سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کا منایا جانے والا چہلم ہو یا پھر ایصال ثواب کی خاطر مرحوم ہو جانے والے مومنین کے لئے مجالس یا خیرات کا سلسلہ۔مگر دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے چہلم کو شرعی اعتبار سے ایک قانونی حیثیت حاصل ہے جبکہ دیگر مرحومین کے لئے چہلم کے عنوان سے ہونے والے پروگرام کو وہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔اس معنیٰ میں کہ معصومین علیہم السلام کی روایات میں آپ کے چہلم منانے پر تاکید ملتی ہے۔جبکہ دیگر تمام مرحوم ہو جانے والے مومنین اور حتیٰ دیگر معصومین علیہم السلام کے لئے ہمیں روایات کے آئینہ میں چہلم کی رسم نظر نہیں آتی۔امام حسین علیہ السلام کے خاص اور منفرد امتیازات میں سے ایک یہی ہے کہ معصومین علیہم السلام نے آپ کی رسم چہلم کی جانب عالم اسلام کو متوجہ فرمایا اور اسے ایک خاص اہمیت کی نظر سے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے زیارت اربعین کو مومن کی علامتوں میں شمار فرمایا ہے۔آپ ایک بندہ مومن کی علامتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

مومن کی پانچ علامتیں ہیں؛دن بھر میں ۵۱ رکعت نماز پڑھنا (نماز پنجگانہ،انکی نوافل اور نماز شب)،اربعین کی زیارت پڑھنا،سیدھے ہاتھ میں انگوٹھی پہننا،خاک پر سجدہ کرنا اور نماز میں بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ۲۰ صفر سنہ ۶۱ ہجری کو مرسل اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے جلیل القدر صحابی جناب جابر بن عبد اللہ انصاری،سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے مدینہ منورہ سے سر زمین کربلا پر تشریف لائے۔(مسار الشيعة (المجموعة)،الشيخ المفيد،ص26،سال چاپ: 1406،ناشر: مكتب آية الله العظمى المرعشي النجفي - قم) اس تاریخ میں شام سے اہل حرم کے کربلا پہونچنے کے سلسلہ میں تاریخ میں مختلف اقوال ذکر ہوئے ہیں۔بعض علماء نے راستہ کی طولانی مسافت اور بعض دیگر وجوہات کے پیش نظر ۲۰ صفر سنہ ۶۱ کے دن اہل حرم کے کربلا پہونچنے کو بعید جانا ہے (شهيد مطهري، حماسه حسینی، ناشر:صدرا، تهران، ج 1،ص 30) جبکہ بعض دیگر علماء نے اس تاریخ میں شام سے واپسی کے دوران اہل حرم کے کربلا پہونچنے کا ذکر کیا ہے۔کچھ محققین کا ماننا ہے کہ ۲۰ صفر سنہ ۶۱ ہجری کو اہل حرم نے شام سے مدینہ کی جانب اپنے سفر کا آغاز کیا ہے۔(النوری، لولو و مرجان، تهران، فراهانی، 1364، ص 154.)

اس تاریخی گفتگو سے قطع نظر جو بات مسلم ہے وہ یہ کہ ۲۰ صفر سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کا یوم چہلم ہے اور اس دن کے لئے معصومین علیہم السلام نے ایک زیارت کی تعلیم دی ہے جو زیارت اربعین کے نام سے معروف ہے۔

اس موقع پر ایک اور خاص رسم جو حالیہ برسوں میں بہت زیادہ نمایاں طور پر سامنے آئی ہے اور ہر سال اسکی رونق میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہ کربلا کی جانب حسینی پروانوں کا ہجوم ہے جو پاپیادہ راہ کربلا کی طولانی مسافت کو طے کرکے اپنے مولا کے حضور اپنی لبیک درج کراتے ہیں۔پاکیزہ جذبات اور معنویت و روحانیت سے لبریز یہ عالیشان رسم گزشتہ صدیوں کے دوران بھی رائج رہی ہے مگر کچھ سالوں سے جو شکل اس رسم نے اختیار کی ہے اسکی نظیر نہیں ملتی۔

ماضی میں بھی سید الشہدا علیہ السلام کے چاہنے والے چہلم کے موقع پر پاپیادہ کربلا مشرف ہوتے رہے ہیں۔متعدد علما اور مراجع کرام  کی سوانح حیات میں یہ تذکرہ ملتا ہے کہ یہ حضرات گذشتہ صدیوں میں بھی اپنے اعزاء و اقارب یا مریدوں کے ہمراہ اس روح پرور اور معنوی رسم پر خود بھی عمل پیرا رہے ہیں اور  ساتھ ساتھ مومنین کو بھی اس میں شریک ہونے کی ترغیب دلائی ہے۔

 

ٹیگس