اسرائیل شیعیان علی کا اصل قاتل
سرکاری آرمی کے ذریعے نہتے شیعیان علی کے قتل عام نے یقینا اکسٹھ ہجری کے واقعہ کربلا کی یاد تازہ کردی ہے-
ثقلین تقوی - کینڈا
ہر صبح لیے ایک ظلم نیا، تیرے لیے اے اہل عزا
ہر روز ہے روز عاشورہ، ہر شہر ہے شہر کرب و بلا
آج نائجیریا میں نائیجیرین یزیدی آرمی کے ہاتھوں پانچسو سے زاید شیعیان علی کا اندہناک قتل عام اور وہاں کے شعیہ قائد و اور ان کے پورے گھرانے پر ظلم و جور کے پہاڑ توڑے جانا، قائد کے بیٹوں کو شہید کرنا، اور اس پر پورے عالمی میڈیا کی انتہائی مجرمانہ موت کی سی خاموشی یہ چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ، یہ عالم کفر اور اس کے سربراہوں (امریکہ، برطانیہ، اسرائیل) کا سوچ سمجھا منصوبہ تھا اور ہے، حد تو یہ ہے کہ کوئی عالمی شخصیت و میڈیا کسی منافقت سے بھی کام نہیں لے رہا، بلکہ بہ بانگ دہل موت کی سی خاموشی اختیار کرتے ہوے اس قتل عام میں اپنی شرکت کا اعلان کر رہا ہے۔
کچھ باتیں و معاملات اتنے برملا ہوتے ہیں کہ ان کو ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، آج اگر اس قتل عام کا الزام ان تینوں پر لگایا جارہا ہے تو اس کو ایک جذباتی سوچ نہیں کہا جا سکتا، افریقہ و نائجیریا میں اسرائیلی مشنریوں کی کھلی و خفیہ کارستانیوں، سال گزشتہ یوم القدس پر بے گناہ مسلمانوں پر قاتلانہ حملہ اور شیخ زکی کے تین جواں بیٹوں کا قتل، یہ سب شواہد ہیں کہ آج کے اس قتل عام کا اصلی ذمہ دار کون ہے۔
سرکاری آرمی کے ذریعے نہتے شیعیان علی کے قتل عام نے یقینا اکسٹھ ہجری کے واقعہ کربلا کی یاد تازہ کردی ہے-
مگر ہائے کربلا والوں، آپ پر رونے اور احتجاج کرنے والا اس وقت کوئی نہیں تھا ، مگر یہ آپ کا ہی صدقہ ہے کہ آج ہر طرف آپ اور آپ کے شعیوں کے قتل پر رونے و احتجاج کرنے والے ساری دنیا میں بھرے پڑے ہیں۔
آفرین ہے اسلامی جمہریہ ایران کے تمام طبقات و ہندوستان و پاکستان کے شیعیان علی پر کہ جو اپنے بھر پور انداز سے نائجیریا، میں ہونے والے انتہائی سفاکانہ مظالم پر اپنی آوازیں مظاہروں اور احتجاج کی صورت میں بلند کر رہے ہیں۔
سانحہ پارا چنار ہو یا سانحہ زاریا، ہر جگہ امریکہ و اسرائیل و اس کے الہ کار اکثر نام نہاد اسلامی ممالک ایسے ہر قتل عام میں برابر کے شریک نظر آئیں گیں– اکسٹھ ہجری میں قاتلان اولاد و شیعیان علی، وقت کے بد ترین و نام نہاد و منافق مسلمان تھے، آج کے شمر و عمر سعد وہ ہی ہیں، مگر یزید کی جگہ صیہونیت نے لے لی ہے، کل کے حقیقی یزید کو اپنی بقاء کے لیے حسین و حسینیوں کے سر درکار تھے، آج کا یزید اپنی بقاء کے لیے ساری دنیا کے شعیوں کے سر مانگ رہا ہے اور تکفیریوں کی شکل میں شمر و عمر سعد کے روحانی و فکری بیٹے آج کے یزید کی مانگیں خوب پوری کر رہے ہیں۔
ایے ذرا ایک نظر دا عش و تکفیری پر ڈالیں ، تکفیری و صیہونی میں غضب کی مماثلت پائی جاتی ہے، دیکھا جائے تو صیہونی تکفیریوں کے بھی پدر ہیں، تکفیری تو اپنے مذہب و مسلک کے علاوہ کسی اور مذہب و مسلک کو بلند نہیں سمجھتے ہیں، جب کہ صیہونی تو دنیا میں اپنے علاوہ کسی بھی بندہ بشر کو اپنے سے افضل نہیں جانتے، اور اس بات کاتو خود قران مجید میں جگہ جگہ ذکر آیا ہے، صیہونیوں کا بس چلے تو وہ دنیا کے ہر انسان سے جینے کا حق چھین لیں۔
داعش کے بارے میں ایک بڑی دلچسب حقیقت دیکھنے کو ملتی ہے جو نظر انداز نہیں کی جا سکتی، کہ داعش کے سربراہ یا لیڈروں کے چہرے کھلے ہوے پائے جاتے ہیں، جبکہ تمام تصویروں اور ویڈیوز میں داعش کی فوج کے چہروں پر نقابیں پڑی ملتی ہیں، اور جب کہیں کسی مرد کے چہرے پر نقاب پڑی ہوئی پائی جائے تو اس نقاب کے پیھچے بہت ساری کہانیاں چپھی ہوئی ہوتی ہیں، یقینا ان نقابوں کے پیھچے اسرائیلی و امریکی کلرز و کمانڈوز کا پایا جانا یقینی ہے، اگر آج یورپ و امریکہ سے دا عش میں افراد بھرتی ہو رہے یا کیے جا رہے ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہ سب مسلمان ہی ہوں ، چاہے نام نہاد ہی سہی، نہیں ہرگز نہیں۔
دنیا میں جگہ جگہ پائے جانے والے انسانی شکلوں کے ڈان ہوں یا امریکہ و اسرائیل جیسے عالمی ڈان، یہ سب کچھ ہوسکتے ہیں مگر عقل کل و ایمان حقیقی رکھنے والے نہیں ہو سکتے، یہ اپنی بد ترین غنڈہ گردی کے زعم میں چھوٹی چھوٹی بچکانہ باتوں اور حرکتوں سے اپنے جرائم کے ثبوت خود دنیا کو فراہم کرتے رہتے ہیں۔ امریکہ روزانہ یہ بات سب کے سامنے بیان کرتا ہے کہ اسرائیل کی حفاظت کرنا اس پر واجب ہے، اس کی ذمہ داری ہے، اس کا ٹھیکہ ہے، اس کا فرض ہے۔ اور ادھر اقایے احمدی نجات اپنے دس سالہ دور میں کئی مرتبہ اعلان کر چکے تھے کہ اسرائیل کو نابود ہونا چاہیے، اس اعلان و عزم کے بعد اسرائیل کی حفاظت کے ٹھیکہ دار یا سیکورٹی گارڈ نے کوئی نہ کوئی پلاننگ تو کرنا ہی تھی، تو القاعدہ، 911، تکفیری، اور داعش، ہی وہ سب ترکیبیں ہیں اسرائیل کی حفاظت کی، کہ جو یکے بعد دیگرے استعمال ہو رہی ہیں۔
داعش کا چہرہ، داعش کے وجود سے متعلق ہر کوئی خوب خوب خوب جان چکا ہے، دنیا کے ہر مذہب و ملک و قوم کا عام آدمی سے لے کر دانشور تک ان کے خاتمہ کی ترکیبیں اپنے اپنے وسائل سے نشر کر رہا ہے۔
امریکا نے اسرایئل و آل سعود کی بقاء کی خاطر داعش کا فتنہ ترتیب دیا ہے ، امریکا دا عش کا ماسٹر مائنڈ ہے ، صیہونی و آل سعود امریکہ کی دو ٹانگیں ہیں جن کے بل پر وہ دنیا میں کھڑا ہے، اس کا سب سے بین ثبوت یہ ہے کہ دا عش نے آج تک فلسطین و اسرائیل کے مسلہ کو دور سے بھی چھونے کی کوشش نہیں کی۔
آج دنیا کا ہر ملک، ہر حکومت پریشان ہے دا عش کے خطرہ سے مگر ، اسرائیل سے اس پریشانی کی ذرا سی بو تک نہیں آرہی ، ذکر تو بڑی چیز ہے ، اسرائیلی حکمران تصور میں بھی دا عش سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کر رہے ہیں اس وقت جنگی پر سکونی جتنی اسرایئل میں چھائی ہوئی ہے، اتنا سکون تو امریکہ سمیت دنیا کے کسی خطہ میں کہیں بھی نہیں پایا جا رہا ہے۔
آج اگر کسی بھی طرح، چاہیے بھولے سے ہی اسرایئل پر حملہ کر دیا جائے، یا اس سے جنگ چھیڑ دی جائے، بہت ممکن ہے کہ دا عش کی وباء اپنی موت آپ مرنے لگے۔
امریکہ خود سے کبھی بھی داعش کے فتنہ کو ختم نہیں کرنا چاہے گا، اور نہ چاہتا ہے، آپ امریکی صدر و وزیر خارجہ کے بیانات کو دیکھ لیں، ان کا تجزیہ کریں، آپ کو صاف پتہ چل جائے گا کہ امریکہ ہی ان کو وجود بخشنے والا، ان کو پالنے والا ہے، امریکہ داعش سے متعلق بچکانہ بیانات دے دے کر خود کو حقیقی بینائی رکھنے والوں کے سامنے عریاں کیے جا رہا ہے ، جیسا کہ ہر ظالم کا وطیرہ ہوتا ہے-