Jan ۰۸, ۲۰۱۷ ۱۸:۴۸ Asia/Tehran
  • سنہ 2016 میں امریکہ نے دنیا کے سات ممالک پر ہزاروں بم اور میزائل برسائے

اعداد و شمار کے مطابق امریکہ نے دو ہزار سولہ میں سات ملکوں پر تقریبا چھبیس ہزار بم برسائے ہیں۔ امریکی سیاسی مبصر میکا زینکو نے یہ تحقیقات انجام دی ہیں اور اسے بین الاقوامی تعلقات کونسل کی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے۔ ان تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ نے شام پر بارہ ہزار ایک سو بانوے، عراق پر بارہ ہزار پچانوے، افغانستان پر ایک ہزار تین سو سینتیس، لیبیا پر چارسو چھیانوے، یمن پر تینتالیس، سومالیہ پر بارہ اور پاکستان پر تین بم برسائے ہیں۔

انٹیلیجنس ڈیٹا کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ باراک اوباما کی حکومت نے،  جن کی صدارت کے آخری ایام گذر رہے ہیں، دوہزار سولہ میں دوہزار پندرہ کی نسبت دیگر ملکوں پر زیادہ بم برسائے ہیں۔ امریکہ نے دو ہزار سولہ میں چھبیس ہزار ایک سو اکھتر بم برسائے ہیں جو دوہزار پندرہ میں تین ہزار ستائیس بموں سے کہیں زیادہ ہیں۔

امریکہ کی سربراہی میں داعش کے خلاف بین الاقوامی نام نہاد اتحاد نے دسمبر میں ایک بیان جاری کرکے اعتراف کیا  کہ اس اتحاد کی بمباری میں ایک سو تہتر عام شہری مارے گئے ہیں۔حالیہ برسوں میں ایسی بہت سی رپورٹیں سامنے آئی ہیں کہ مختلف ممالک میں امریکہ کی بمباری میں عام شہری مارے گئے ہیں، یہ رپورٹیں ان ملکوں نے جاری کی ہیں جن پر امریکہ نے بمباری کی ہے۔ امریکی حکام علاقے میں اپنے اھداف حاصل کرنے کےلئے ہر وسیلے سے کام لینے کا جواز پیش کرتے ہیں۔ امریکہ کی اندھی بمباری میں بالخصوص شام اور عراق کے علاقوں پر بمباری میں دہشتگردی کے خلاف جدوجہد میں امریکہ کی خود سری دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اقدامات دہشتگردی کے خلاف ہمہ گیر جدوجہد کرنے میں کسی طرح کی مدد نہیں کرتےبلکہ اس کے برعکس یہ ‌فضائی آپریشنوں کے ذریعے ایک طرح سے دہشتگردوں کی مدد ہے۔ درحقیقت بدامنی، بنیادی تنصیبات کی تباہی اور مشرق وسطی میں متعدد دہشتگرد گروہوں کی موجودگی امریکہ کی سازشوں اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ یاد رہے شام، عراق اورعلاقے کے دیگر ممالک داعش کو جنم دینے کی امریکہ کی سازشوں اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ کم از کم علاقے کی پندرہ برسوں کی تاریخ یہ ثابت کرتی ہے کہ جہاں جہاں امریکہ نے براہ راست طریقے سے فوجی مداخلت کی ہے اس ملک کا سب کچھ نابود ہوکر رہ گیا ہے۔ تباہ کن گروہ امریکہ کے زیر قبضہ علاقوں سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس وقت شام و عراق  کی صورتحال اور وسیع پیمانے پر جو تباہ کاریاں ہو رہی ہیں ان کا براہ راست تعلق مغربی ملکوں بالخصوص امریکہ کی  پالیسیوں سے ہے کیونکہ ان ملکوں نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کو دہشتگردی کا اڈا اور اپنے فوجی حملوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ بہرحال امریکہ کے اقدامات سے اس کی شدت پسندی ظاہر ہوتی ہے جو اپنے مذموم اھداف حاصل کرنے کے لئے کسی بھی غیر انسانی کارروائی سے دریغ نہیں کرتا  اور اس کے ان اقدامات سے صرف اور صرف تباہی اور بربادی ہی پھیلتی ہے۔امریکہ کے حملوں کا فائدہ صرف دہشتگرد گروہوں کو ہوتا ہے، ایسے دہشتگرد گروہ جو شام و عراق سمیت مختلف علاقوں میں افراتفری اور ویرانی پھیلانے کے درپے ہیں۔ امریکہ کے اقدامات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امریکہ بدستور مشرق وسطی میں اپنی جنگ پسندانہ پالیسیوں پر گامزن ہے اور اس کی پالیسی کا ایک حصہ اپنے اھداف حاصل کرنے ، فوجی ہتھکنڈوں منجملہ بمباری کرنے اور عام شہریوں کا قتل عام کرنا ہے۔

 

ٹیگس