May ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۸:۵۸ Asia/Tehran
  • ریاض کانفرنس میں ٹرمپ کے ایران مخالف مواقف

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بعض اسلامی ممالک کے نمائندوں کی موجودگی میں تقریر کرتے ہوئے ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ٹرمپ نے، کہ جو خطے کے دورے کے موقع پر اپنے آپ کو امریکی عوام کی دوستی ، امید اور محبت کے پیغام کے حامل قرار دے رہے ہیں، امریکی صدر کی حیثیت سے اسلامی دنیا کے مرکز کے اپنے اولین دورے کی علامتی اہمیت پر تاکید کی ہے۔

امریکی صدر نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ دہشت گردی کا مقابلہ ان کی نظر میں خیر اور شر کے درمیان لڑائی ہے اسلامی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کا پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کریں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کے دن 21 مئی کو ایسے ممالک کے سربراہوں کے سامنے ان ممالک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تنقید کرنے سے اجتناب کیا جن میں سے بہت سے ممالک پر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ہمیشہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عا‏‏ئد کیا جاتا ہے۔ البتہ ٹرمپ کی جانب سے تنقید نہ کئے جانے کی وجہ واضح ہے۔ امریکہ کے اس بڑے تاجر نے اپنے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر تقریبا پانچ سو ارب ڈالر مالیت کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور یہ کوئی چھوٹی رقم نہیں ہے۔ سعودی عرب کے بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدے درحقیقت سعودی عرب کی جانب سے امریکہ کو دی جانے والی رشوت ہے اور اس کا مقصد ٹرمپ حکومت کو اپنے ساتھ ملانا ہے۔

مغربی ایشیا کے حالات پر ایک نظر ڈالنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ خطے میں بحران امریکہ کا ہی پیدا کردہ ہے اور سعودی عرب، قطر نیز خطے کے بعض دوسرے ایسے ممالک جو صیہونی حکومت کے ساتھ ہم آہنگ ہے وہ سب اس بحران کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ خطے میں امریکہ دہشت گردی کا جو مقابلہ کر رہا ہے اس میں خیر کا نام و نشان تک نظر نہیں آتا ہے اور خطے کی اقوام پر امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کی جانب سے صرف شر ہی مسلط کیا گیا ہے۔

اب بھی امریکی صدر رائے عامہ کو دھوکہ دینے پر مبنی اپنے بیانات کے ذریعے ایرانوفوبیا کی بنیاد پر ایک نیا اتحاد وجود میں لانے کے درپے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اتوار کے دن ٹویٹر پر اپنے پیغام میں سعودی عرب میں ٹرمپ کے بیانات پر طنز کرتے ہوئے لکھا تھا کہ کیا ٹرمپ کے ان بیانات کا تعلق خارجہ پالیسی سے ہے یا ان کا مقصد سعودی عرب سے چار سو اسّی ارب ڈالر ہتھیانا ہے؟

آج عالمی رائے عامہ اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ نائن الیون کے واقعات کے بعد امریکہ نے طالبان اور دہشت گردی کے مقابلے اور القاعدہ اور عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کو نیست و نابود کرنے کے بہانے افغانستان اور عراق پر جو حملے کئے تھے ان کا خطے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ان میں خطے کے لئے کوئی خیر نہیں تھی بلکہ یہ حملے بدامنی اور امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کے پھیلنے کا سبب بن گئے۔ خطے میں امریکہ کے خیر و شر کے مقابلے کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ امریکہ نے دہشت گردی کا جو مقابلہ کیا ہے اس سے نہ تو دہشت گردی ہی ختم ہوئی ہے اور نہ ہی خطے میں امن قائم ہوا ہے۔ داعش نے ایک نئے دہشت گرد گروہ کی صورت میں خطے کو جنگ کی آگ میں دھکیل دیا ہے تاکہ امریکہ اور سعودی عرب جدید مشرق وسطی کا نقشہ اپنی مرضی کے مطابق بنا سکیں۔ اسی لئے ٹرمپ کے بیانات اور ایران کے خلاف ریاض اور واشنگٹن کے مشترکہ الزامات خطے میں نئی مہم جوئیوں کا پیش خیمہ ہیں اور ان مہم جوئیوں کو خیر و شر کی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ البتہ بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اور سعودی عرب کے بادشاہ دونوں کو ہی بے بنیاد الزامات لگا کر اس طرح کا ماحول بنانے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال میں ٹرمپ اپنے داخلی ناقدین اور مخالفین کی توجہ امریکی سرمایہ داروں کے لئے پیسے بنانے والی اپنی پالیسیوں کی جانب مبذول کروانے اور متنازعہ فیصلوں کے ذریعے وہ اپنے غیر سنجیدہ اقدامات سے رائے عامہ کی توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سعودی حکام بھی کئی سو ارب ڈالر کی رشوت دے کر بزعم خویش ایک پشت پناہ یا تکیہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ ان کا خیال باطل ہے کہ ان کو ایک مضبوط سہارا مل گیا ہے۔ واضح سی بات ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنی طاقتور ملت پر بھروسہ کرتا ہے اور ایک جمہوری نظام رکھتا ہے اس لئے وہ خطے میں امریکی مہم جوئی سے متاثر نہیں ہوگا اور یقینی طور پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خطے میں کشیدگی پیدا کرنے کا موقع فراہم نہیں کرے گا۔

 

ٹیگس